| تِری جانب اُٹھتے قدم دیکھتے ہیں | 
| ہم اپنے مقدر میں غم دیکھتے ہیں | 
| یہ بھی اُن کا طرزِ ستم دیکھتے ہیں | 
| عدو پر کرم ہی کرم دیکھتے ہیں | 
| وہ غیروں میں مصروف ایسے ہوے ہیں | 
| اب اُن کا تغافل بھی کم دیکھتے ہیں | 
| سما کر نظر میں خدا بھی صنم بھی | 
| تماشائے دیر و حرم دیکھتے ہیں | 
| کبھی آنکھ بھر کے کبھی سر اُٹھا کے | 
| اُنہیں بزم میں دم بہ دم دیکھتے ہیں | 
| سرِ بزم پہلو میں ہیں غیر ہی غیر | 
| وہ میری طرف آج کم دیکھتے ہیں | 
| یہ ظرفِ نظر بھی ہمیں ہی مِلا ہے | 
| کہ سب دوستوں کے ستم دیکھتے ہیں | 
| جَہاں مِیں تِری راہ پر چلنے والے | 
| کہاں حاصلِ بیش و کم دیکھتے ہیں | 
| یہ ناز و نِعم یہ غرور و تکبر | 
| سبھی اِن حَسینوں کے ہم دیکھتے ہیں | 
| کرم ہم پہ شاہدؔ ہے اہلِ نظر کا | 
| کہاں کوئی دیکھے جو ہم دیکھتے ہیں | 
    
معلومات