تِری جانب اُٹھتے قدم دیکھتے ہیں
ہم اپنے مقدر میں غم دیکھتے ہیں
یہ بھی اُن کا طرزِ ستم دیکھتے ہیں
عدو پر کرم ہی کرم دیکھتے ہیں
وہ غیروں میں مصروف ایسے ہوے ہیں
اب اُن کا تغافل بھی کم دیکھتے ہیں
سما کر نظر میں خدا بھی صنم بھی
تماشائے دیر و حرم دیکھتے ہیں
کبھی آنکھ بھر کے کبھی سر اُٹھا کے
اُنہیں بزم میں دم بہ دم دیکھتے ہیں
سرِ بزم پہلو میں ہیں غیر ہی غیر
وہ میری طرف آج کم دیکھتے ہیں
یہ ظرفِ نظر بھی ہمیں ہی مِلا ہے
کہ سب دوستوں کے ستم دیکھتے ہیں
جو چلتے ہیں راہِ محبت پہ بے خوف
کہاں حاصلِ بیش و کم دیکھتے ہیں
یہ ناز و نِعم یہ غرور و تکبر
سبھی اِن حَسینوں کے ہم دیکھتے ہیں
حسینانِ عالم پہ لکھ کر غزل ہم
تماشائے اہلِ قلم دیکھتے ہیں
کرم ہم پہ شاہدؔ ہے اہلِ نظر کا
کہاں کوئی دیکھے جو ہم دیکھتے ہیں

0
79