| کرتے تھے جو خواہش مرے دل میں سمونے کے لیے | 
| اب وہ بہانے ڈھونڈتے ہیں دور ہونے کے لیے | 
| کس چیز کے کھو جانے کا میں غم کروں اے جانِ جاں | 
| کھو کر تمہیں باقی بچا ہی کیا ہے کھونے کے لیے | 
| جاناں تمہارے بعد یوں کی بانٹ اپنے وقت کی | 
| دن رکھ لیا ہنسنے کی خاطر، رات رونے کے لیے | 
| وہ اُن کا شرماتے ہوئے چلمن ہٹانا چہرے سے | 
| کافی ہے یہ انداز شاہدؔ ہوش کھونے کے لیے | 
    
معلومات