کرتے تھے جو خواہش مرے دل میں سمونے کے لیے
اب وہ بہانے ڈھونڈتے ہیں دور ہونے کے لیے
کس چیز کے کھو جانے کا میں غم کروں اے جانِ جاں
کھو کر تمہیں باقی بچا ہی کیا ہے کھونے کے لیے
جاناں تمہارے بعد یوں کی بانٹ اپنے وقت کی
دن رکھ لیا ہنسنے کی خاطر، رات رونے کے لیے
وہ اُن کا شرماتے ہوئے چلمن ہٹانا چہرے سے
کافی ہے یہ انداز شاہدؔ ہوش کھونے کے لیے

0
104