اِک نظر سے ہزاروں مارے ہیں
کہ غضب ابرو کے اِشارے ہیں
عشوہ و ناز جو تمہارے ہیں
سبھی اندازِ حُسن پیارے ہیں
ہم مگر سادگی کے مارے ہیں
تھا جو ہم میں وہ التزام، نہ پوچھ
ہو گئے زخم اِلتیام، نہ پوچھ
وقتِ آخر کا انتظام، نہ پوچھ
اُس کی راتوں کا انتقام، نہ پوچھ
جس نے ہنس ہنس کے دن گزارے ہیں
برتَری والو! منصَبی والو!
یاوَری والو! قیصَری والو!
شبِ ظُلمت میں روشنی والو!
اے سہاروں کی زندگی والو!
کتنے انسان بے سہارے ہیں
قَمَرِ کُل سے تجھ کو کیا نسبت
صوتِ بُلبُل سے تجھ کو کیا نسبت
بوئے سُنبل سے تجھ کو کیا نسبت
لالہ و گُل سے تجھ کو کیا نسبت
نا مکمل سے استعارے ہیں
یہ زمانے کو کر دِکھاویں گے
زیست کے بعد زیست پاویں گے
اُس کی آنکھوں سے دل میں اُتریں گے
ہم تو اب ڈوب کر ہی ابھریں گے
وہ رہیں شاد جو کنارے ہیں
روحِ عُشّاق تِلمِلا اُٹّھی
مجلسِ درد تھرتَھرا اُٹّھی
دیکھیے دل سے کربلا اُٹّھی
شبِ فرقت بھی جگمگا اُٹّھی
اشکِ غم ہیں کہ ماہ پارے ہیں
اہلِ دنیا یہ بات مُبرم ہے
مبتلا اِس میں ایک عالم ہے
کہ اِسی میں سکون مُبہم ہے
آتشِ عشق وہ جہنم ہے
جس میں فردوس کے نظارے ہیں
باغ مہکا دِیا گُلابوں نے
سر پہ چھاؤں کی ہے سحابوں نے
شب کی روشن ہمارے اشکوں نے
وہ ہمِیں ہیں کہ جن کے ہاتھوں نے
گیسوئے زندگی سنوارے ہیں
اُس کی عشوہ طرازیوں پہ نہ جا
غیر سے ساز بازیوں پہ نہ جا
دیکھ یوں احترازیوں پہ نہ جا
حُسن کی بے نیازیوں پہ نہ جا
بے اشارے بھی کچھ اشارے ہیں

0
90