یہ تو خلافِ اَدب ہے، یہ آرزو بھی رہے
میں اُن کی بزم میں جاؤں تو گفتگو بھی رہے
نجانے کتنے عدو کتنے عیب جُو بھی رہے
یہ آرزو کہ مِرے آس پاس تُو بھی رہے
تلاشِ یار مِیں دیکھوں مَیں غیر کی جانب؟
حرام ہے جو مجھے اپنی جستجو بھی رہے
بَناؤ یوں ہو مکمل کہ میری حسرت کا
تمہارے کف پہ برنگِ حنا لہو بھی رہے
خدا کرے کہ تمنا یہ میری بر آئے
وہ مجھ سے بات کرے میرے روبرو بھی رہے
نگاہ پیش رہے لاکھ جامِ جم تو کیا
زرا سا قطرہِ صہبا کہ در گلو بھی رہے
چلے نہ محض طلب مندی سے یہاں پر کام
حضور ساقیِ میخانہ سرفرو بھی رہے
ہمارا وہ نہ رہے لیکن اے خدائے خلق
ہمیں وہ یاد رہے اُس کی آرزو بھی رہے
بشر کا دل تو خدا کا ٹھکانہ ہے ہی مگر
ہے میرے دل کی یہ ضد کوئی خوبرو بھی رہے
جو فیض چاہیے فنِ نصیر کا شاہدؔ
تو لازمی ہے کہ تُجھ میں ادب کی خُو بھی رہے

83