یہ تو خلافِ اَدب ہے, یہ آرزو بھی رہے
میں اُن کی بزم میں جاؤں تو گفتگو بھی رہے
تلاشِ یار مِیں مَیں دیکھوں غیر کی جانب؟
حرام ہے جو مجھے میری جستجو بھی رہے
دلِ بشر تو ٹھکانہ خدا کا ہے ہی مگر
ہے میرے دل کی یہ ضد کوئی خوبرو بھی رہے
ہمارا وہ نہ رہے پر اے ربِ دو عالم
ہمیں وہ یاد رہے اُس کی آرزو بھی رہے
جو فیض چاہیے فنِ نصیر کا شاہدؔ
تُو لازمی ہے کہ تُجھ میں ادب کی خُو بھی رہے

58