میں سارے جہاں کو بُھلائے ہوے ہوں
تُجھے اپنے دل میں بَسائے ہوے ہوں
سکونِ دل و جاں گنوائے ہوے ہوں
دل اِک بے وفا سے لگائے ہوے ہوں
مِرے ساتھ تم مت چلو عشق کی چال
بہت اِس کو میں آزمائے ہوے ہوں
مِرے حوصلے کی مجھے داد تو دے
ازل سے تِرا غم اُٹھائے ہوے ہوں
الہی مِری کیوں نہیں بن رہی بات؟
اُنہیں حالِ دل تو سنائے ہوے ہوں
اثر اُن پہ اب کچھ تو ہو اے خدایا
فُغاں سے قیامت اُٹھائے ہوے ہوں
چراغوں سے روشن نہیں ہے تِری بزم
وہ میں ہوں جو سینہ جَلائے ہوے ہوں
سُنا ہے کہ وہ آ رہے ہیں مِرے گھر
سو میں چشمِ حسرت بچھائے ہوے ہوں
تِری ذات کو جان کر کعبہِ دل
تِرے سامنے سر جُھکائے ہوے ہوں
تِرے آستاں پر سر اپنا جُھکا کر
میں اپنا مقدر جگائے ہوے ہوں
مِری خوش نصیبی مِرا ساتھ دینا
کسی کو میں رستے پہ لائے ہوے ہوں
میں نے چوٹ پر چوٹ کھائی ہے، پھر بھی
تِری بزم میں مسکرائے ہوے ہوں
سبب یہ ہے بیتابیِ جاں کا شاہؔد
سر آنکھوں پہ اُس کو بِٹھائے ہوے ہوں

0
127