بندہِ بے قرار آیا ہے
ایک اُمیدوار آیا ہے
جو بھی آیا ہے تیری محفل سے
دل لیے بے قرار آیا ہے
دل بھلا کب کسی کی سنتا ہے
کیوں نصیحت گُزار آیا ہے
یہ میں ہی جانتا ہوں مجھ پر اُنہیں
کس طرح اعتبار آیا ہے
منزلیں اوروں کو نصیب ہوئیں
میرے حصے غبار آیا ہے
بھری دنیا میں میرے حصے میں
اِک تِرا انتظار آیا ہے
کسی کو کوئی پوچھتا ہی نہیں
کیسا بے حِس دیار آیا ہے
آہ، جب جسم سے نکل گئی جان
تب مِرا غم گسار آیا ہے
میری توبہ کی خیر ہو یارب
موسمِ پُر بہار آیا ہے
بارِ وحشت جِسے کہیں شاہدؔ
میرے دل پر وہ بار آیا ہے

0
39