| وہ کچھ اِس طرح مِرا کام تمام کر رہے ہیں | 
| سبھی اہلِ بزم یاد اللہ کا نام کر رہے ہیں | 
| ہیں تمہارے چاہنے والے یہاں بہت مگر دیکھ | 
| ہمِیں ہیں جو اپنی ہستی تِرے نام کر رہے ہیں | 
| اُنہیں تیر کی ضرورت ہے نہ خنجر و حجر کی | 
| وہ نگاہ پھیر کے قصہ تمام کر رہے ہیں | 
| یہ ہماری تھی تمنا دل و جاں رہے سلامت | 
| سو ہم اُن کے کوچہِ بند میں قیام کر رہے ہیں | 
| یہ تو صاحبِ جنوں ہیں کہ تمہاری اِک اَدا پر | 
| سرِ بزمِ عشق خود کو تہِ دام کر رہے ہیں | 
| نہیں رہتے سر سلامت سبھی جانتے ہوے بھی | 
| درِ یار پر وہ سجدے سرِ عام کر رہے ہیں | 
    
معلومات