جہاں دار اور نہ ہی جہاں سے ہم
رکھتے ہیں نسبت آسماں سے ہم
تم یہیں ہم سے ملتے ہو یا پھر
حشر برپا کریں فُغاں سے ہم
دل ملول اور جاں نڈھال لیے
پلٹے ہیں اُن کے آستاں سے ہم
بال و پَر کاٹ ڈالے جب صیاد
کس طرح نکلیں آشیاں سے ہم؟
دن کو رہتا ہے ضعف کا عالم
رات کو لگتے ہیں جواں سے ہم
دل لگا کر حسینوں سے شاہدؔ
ہاتھ دھو بیٹھے اپنی جاں سے ہم

0
109