غموں کو بُھلا دینے والے حَسیں، دوست
مِری ہر خوشی کے ہوے ہیں اَمیں، دوست
اے میرے دلِ ناتواں کے مَکیں، دوست
تِرا ہجر مجھ کو گوارا نہیں، دوست
تجھے کس طرح، کیسے سمجھاؤں یہ بات
تِرے بِن سکونِ دل و جاں نہیں، دوست
میں مدہوش ہونے کا ہر گز نہیں تھا
مگر وہ تِری چشمِ مست آفریں، دوست
فضائے چمن اور مہکنے لگی ہے
کُھلے جو تِرے گیسوئے عنبریں، دوست
تو سوچ اپنا، اے ناصبِ ناصبیت
ہمارا ہے عشقِ علیؑ بہتریں، دوست
فقط اِک یہی ہے تمنائے شاہد
کہ جب موت آئے مجھے، ہوں قریں، دوست

0
92