بے کَلی کے دن گزرتے ہی نہیں
بات آنے کی وہ کرتے ہی نہیں
دیکھیے غنچے سبھی مرجھا گئے
آپ گلشن سے گزرتے ہی نہیں
اے خدا کیا ہو گیا اُن کو، کہ وہ
عہد و پیماں سے مُکرتے ہی نہیں
اک میں ہوں دل میں اُترتا ہی نہیں
اِک وہ ہیں دل سے اُترتے ہی نہیں
آپ کو کیا ہو گیا ہے، آپ اب
کارِ جور و ظُلم کرتے ہی نہیں
دل میں دنیا والوں کا، گھر والوں کا
خوف ہو تو عشق کرتے ہی نہیں
عشق ہے خود سے گزر جانے کا نام
خود سے لیکن ہم گزرتے ہی نہیں
آج کے عاشق عجوبے ہیں میاں
یہ بچھڑ جانے پہ مرتے ہی نہیں
شاہدؔ اپنی سی بہت کوشش کی، پَر
زندگی کے دن سنورتے ہی نہیں

106