خود پہ بیداد کر رہا ہوں میں
تجھ کو پھر یاد کر رہا ہوں میں
دل کو ناشاد کر رہا ہوں میں
غم سے آزاد کر رہا ہوں میں
ساری دنیا کو بھول کر ہمدم
اِک تجھے یاد کر رہا ہوں میں
وہ جنہیں پاسِ التجا ہی نہیں
اُن سے فریاد کر رہا ہوں میں
کوئی مجھ سا کہاں، کہ ہو کر قید
شکرِ صیاد کر رہا ہوں میں
تم بھی اِک دن کرو گے یوں فریاد
جیسے فریاد کر رہا ہوں میں
تم نے کیسے بُھلا دِیا وعدہ
بس یہی یاد کر رہا ہوں میں
سہنے ہیں تیر یار کے شاہدؔ
سینہ فولاد کر رہا ہوں میں

93