جبریلؑ قلم، لوح لے آیا مِرے آگے |
تھا مدحتِ سرورؐ کا اِرادہ مِرے آگے |
کیا خوب ثنا ہوتی ہے قرآن کے ہوتے |
کُھلتے ہیں مضامین یوں کیا کیا مِرے آگے |
ہوتی ہے شَبِ تار مِری تجھ سے منور |
رہتا ہے تَرے رُخ سے اُجالا مِرے آگے |
مجھ کو نہیں ہے دولتِ دنیا کی ضرورت |
ہر لمحہ ہے کنزِ شہِ والا مِرے آگے |
ہے شاہِ سَلاطینِ زماں سے مجھے نسبت |
جُھکتے ہیں سَلاطینِ زمانہ مِرے آگے |
دیتا ہے مجھے لطف و مزہ نامِ محمدؐ |
کچھ بھی نہیں یہ ساغر و مینا مِرے آگے |
مانا کہ نہیں حُسنِ عمل پاس ولیکن |
ہے شافعِ محشر کا بھروسا مِرے آگے |
ہو جو تَرے دامن کا سہارا مجھے حاصل |
پھر کیا تَپَش و وسعتِ صحرا مرے آگے |
میں کُنجِ لَحد سے بڑے آرام سے نکلا |
تھا شافعِ محشر کا بھروسا مِرے آگے |
دہلیزِ دَرِ شاہ ہے سدرہ مِرے نزدیک |
ہے عرش, مزارِ شہِ والا مِرے آگے |
جاؤوک کا فرماں ہے تسلی مِرے حق میں |
دربار تمہارا ہے پَناہا مِرے آگے |
ہے چاند تَرے چہرے کا پرتو مِرے نزدیک |
ہے شمس تَرے نور کا ٹکڑا مِرے آگے |
شاہدؔ ہوئی جب سے نَظَرِ رشکِ مسیحا |
ٹکتے ہی نہیں ہیں غمِ دنیا مِرے آگے |
محمدشاہدؔعلی صابری |
معلومات