یوں ہی نہیں لوح و قلم آیا مِرے آگے
تھا مدحتِ سرورؐ کا اِرادہ مِرے آگے
کیا خوب ثنا ہوتی ہے قرآن کے ہوتے
کُھلتے ہیں مضامین یوں کیا کیا مِرے آگے
ہوتی ہے شَبِ تار مِری تجھ سے منور
رہتا ہے تَرے رُخ سے اُجالا مِرے آگے
ہے چاند تَرے چہرے کا پرتو مِرے نزدیک
ہے شمس تَرے نور کا ٹکڑا مِرے آگے
جاؤوک کا فرماں ہے تسلی مِرے حق میں
دربار تمہارا ہے پَناہا مِرے آگے
الزام نہ دے سر کو جھکانے کا اے واعظ
تُو دیکھ کہ آیا ہے مدینہ مرے آگے
دہلیزِ دَرِ شاہ ہے سدرہ مِرے نزدیک
ہے عرش, مزارِ شہِ والا مِرے آگے
جز احمدِ مرسل نہیں آقا مجھے منظور
جز مرتضی کوئی نہیں مولا مرے آگے
ہے شاہِ سَلاطینِ زماں سے مجھے نسبت
جُھکتے ہیں سَلاطینِ زمانہ مِرے آگے
وہ مالکِ جنت وہ شبیہانِ محمد
حسنین کا رہتا ہے یہ رتبہ مرے آگے
ہو جو تَرے دامن کا سہارا مجھے حاصل
پھر کیا تَپَش و وحشتِ صحرا مرے آگے
دیتا ہے مجھے لطف و مزہ نامِ محمد
کیا چیز ہے شیرینی و میٹھا مِرے آگے
رکھتا نہیں ہوں مال و زرِ دہر کی خواہش
ہر لمحہ ہے کنزِ شہِ والا مِرے آگے
میں کُنجِ لَحد سے بڑے آرام سے نکلا
تھا شافعِ محشر کا بھروسا مِرے آگے
شاہدؔ ہوئی جب سے نَظَرِ رشکِ مسیحا
ٹکتے ہی نہیں ہیں غمِ دنیا مِرے آگے
محمدشاہدؔعلی صابری

0
125