زندگی ہے کہ گھٹتی جاتی ہے
آتشِ عشق بڑھتی جاتی ہے
ایک دنیا ٹھہر کے دیکھتی ہے
اِک حَسیں لڑکی چلتی جاتی ہے
ہے تِرے انتظار میں کوئی
گھر چلو شام ڈھلتی جاتی ہے
اب یہاں سے کہیں نہ جانا تم
کہ طبیعت بگڑتی جاتی ہے
آ گئے اُن کے آستانے پر
زندگی اب سنورتی جاتی ہے
دور مجھ سے وہ کیا ہوا شاہدؔ
شہ رگِ جان کٹتی جاتی ہے
کچھ نہ کچھ اب تو کیجیے شاہدؔ
زندگی ہے گزرتی جاتی ہے

0
55