ساری کی ساری ہے انجمن، مضطرب |
آج ہے چہرہِ گُلبدن، مضطرب |
جانے یہ کون سا پھول تم توڑ لائے |
ہو گئی ہے فضائے چمن، مضطرب |
وہ پَری رُخ تو خوش ہے بچھڑ کر، مگر |
ہو گیا ہے مِرا بانکپن، مضطرب |
ہے بڑی بات اِس دور میں جو ملے |
کوئی مجنوں کوئی کوہکن، مضطرب |
اے خدا اب تو کوئی مسیحا اُتار |
ہو گئے میرے اہلِ وطن، مضطرب |
زیرِ تیغ اب کہ شاہؔد بَھلا کون ہے |
کیوں ہوا ہے یہ شمشیرزن، مضطرب |
معلومات