ساری کی ساری ہے انجمن، مضطرب
آج ہے چہرہِ گُلبدن، مضطرب
جانے یہ کون سا پھول تم توڑ لائے
ہو گئی ہے فضائے چمن، مضطرب
وہ پَری رُخ تو خوش ہے بچھڑ کر، مگر
ہو گیا ہے مِرا بانکپن، مضطرب
ہے بڑی بات اِس دور میں جو ملے
کوئی مجنوں کوئی کوہکن، مضطرب
اے خدا اب تو کوئی مسیحا اُتار
ہو گئے میرے اہلِ وطن، مضطرب
زیرِ تیغ اب کہ شاہؔد بَھلا کون ہے
کیوں ہوا ہے یہ شمشیرزن، مضطرب

1
74
بیچا ہے باغباں نے فقط پھولوں کو
ہے بھلا کیوں یہ پورا چمن مضطرب