مضطرب کیوں ہے، مدعا کیا ہے؟
دلِ ناداں تجھے ہوا کیا ہے؟
تیرے ہوتے بھی، دل میں ہوتا ہے
آخر اِس درد کی دوا کیا ہے؟
اُس کے ہوتے بھی اِنتظار اُس کا
یا الہی یہ ماجرا کیا ہے؟
ہم بھی بیٹھے ہیں تیری محفل میں
کاش! پوچھو کہ مدعا کیا ہے
حشر جب ایک روز ہونا ہے
پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے؟
او مِرے دلربا تُو ہی کچھ کہہ
غمزہ و عشوہ و ادا کیا ہے؟
اِس سے کیوں قتل ہوتے ہیں، آخر
نِگہِ چشمِ سرمہ سا کیا ہے؟
اُس کی قدرت ہے اور وہی جانے
ابر کیا چیز ہے، ہوا کیا ہے
تُو سبھی کو معاف کرتا جا
اور درویش کی صدا کیا ہے
اِک تِرا نام جانتا ہوں بس
میں نہیں جانتا دعا کیا ہے
تیرے ہمراہ ہونے سے، منزل
مفت ہاتھ آئے تو بُرا کیا ہے
میں نہیں جانتا اُنہیں شاہدؔ
جو نہیں جانتے وفا کیا ہے

0
83