ایک مَحْمِل دیکھتا رہ جاتا ہوں
خاکِ صحرا چھانتا رہ جاتا ہوں
کھیل یہ ہی کھیلتا رہ جاتا ہوں
نالہ شب بھر کھینچتا رہ جاتا ہوں
اُس کی یادوں سے مجھے فرصت نہیں
وقت خود سے مانگتا رہ جاتا ہوں
ذکر تیرا کوئی کر جاتا ہے اور
رات بھر میں جاگتا رہ جاتا ہوں
رات کی تاریکی میں کیا کیا کِیا
سوچتا ہوں, کانپتا رہ جاتا ہوں
وہ چَلی جاتی ہے ہنستی کھیلتی
میں اکیلا چیختا رہ جاتا ہوں
جو خَلل پیدا کرے ایمان میں
حُسن ایسا دیکھتا رہ جاتا ہوں
لب بہت نازک ہیں اُس کے اور میں
پاگلوں سا چومتا رہ جاتا ہوں
بے نیازی سے گُزر جاتی ہے وہ
کھڑکی سے میں جھانکتا رہ جاتا ہوں
شاہدؔ اکثر بھول جانے کا اُسے
سوچتا ہوں, سوچتا رہ جاتا ہوں

0
1
53
چ سدچفطبنم،۔

0