ڈھل گئی شام، صبح آتی ہے
یاد گھر کی بہت ستاتی ہے
ہم کہاں آتے ہیں تِری گلی میں
بس تِری یاد کھینچ لاتی ہے
دھیان سے حالِ دل مِرا سننا
آہ، میری شرر بناتی ہے
یہ دو گھڑیاں ہوئیں قیامت کی
آپ آئیے کہ موت آتی ہے
حال بھی پوچھتی ہے آ کر, اور
چائے, سگریٹ بھی پِلاتی ہے
سامنے رکھ کے وہ مئے گُلفام
میرؔ کے شعر بھی سُناتی ہے
خالی جاتی نہیں کوئی ساعت
دم بہ دم تیری یاد آتی ہے
راز کوئی تو دل میں ہے شاہدؔ
تیری خاموشی سب بتاتی ہے

0
69