آتے آتے صنم, رہ گئے ہیں |
دیدہِ نم بھی نم رہ گئے ہیں |
مائلِ لطف غیروں پہ ہیں وہ |
غم اُٹھانے کو ہم رہ گئے ہیں |
نامہ بَر! خط اُنہیں دے کے کہنا |
کچھ اَلم, بے رقم رہ گئے ہیں |
اُس گلی ہم بھی جاتے ولیکن |
خوفِ ذلت سے ہم رہ گئے ہیں |
یوں تو ہم نے سنوارے بہت کام |
زلفِ جاناں کے خم رہ گئے ہیں |
اب کہاں پہلے سی لذتِ عشق |
اب کہاں دم قدم رہ گئے ہیں |
بے خودی میں خدا جن کو کہہ لیں |
اب کہاں وہ صنم رہ گئے ہیں |
ساتھ میرے وہ اپنی وفا کی |
کھاتے کھاتے قسم رہ گئے ہیں |
چل رہا ہوں کٹھن راستے پر |
یار بھی کم سے کم رہ گئے ہیں |
ڈوبتے کیوں ہیں رند اِس میں.؟ شاید |
قطرہِ مے میں یم رہ گئے ہیں |
مے کَشوں نے لِیا لطفِ جلوہ |
صاحبانِ حرم رہ گئے ہیں |
واں ہوے مُفلِسُ الحال مقبول |
اور اہلِ حشم, رہ گئے ہیں |
روزِ اوّل سے توصیف اُنؐ کی |
لکھتے لکھتے قلم رہ گئے ہیں |
ایک اُنؐ کے تصدق سے شاہدؔ |
روزِ محشر بھرم رہ گئے ہیں |
معلومات