نہیں کوئی بَچا رشتہ ہمارا
ہوا تھا خالی بس بَٹوا ہمارا
قَدم دو چار چَل کر تھک گئے سب
کچھ ایسا تھا کَٹِھن رستہ ہمارا
سِتم ہے, آپ کے ہوتے ہُوے بھی
ہمارے ساتھ ہے سایہ ہمارا
کہیں کیا یاس و مَحْرومی کی رُوداد
کبھی لَوٹا نہیں بِچْھڑا ہمارا
کبھی مَجْنوں کبھی رانّجھے کی صورت
یہ دنیا کہتی ہے قِصّہ ہمارا
لِیا تھا بے خُودی میں جو شَبِ وصل
بُھلا پاؤ گے وہ بوسہ ہمارا؟
یہی خواہش رہی ہے شاہدؔ اپنی
کبھی خود پر بھی بس چلتا ہمارا

0
14