| خوف کھاتے نہیں عہدِ ہجراں سے ہم | 
| تیرے عاشق ہوے ہیں دل و جاں سے ہم | 
| دیکھ کر دشت میں، مجنوں حیراں ہوا | 
| پِھر رہے تھے وہاں چاک داماں سے ہم | 
| پہلے کرتے ہیں خود ہی یقیں اُن پہ، اور | 
| پھر ہو جاتے ہیں خود ہی پشیماں سے ہم | 
| شور سُن کر وہ دروازے پر آئیں گے | 
| اِس بہانے، اُلجھتے ہیں درباں سے ہم | 
| التفات اُن کا ہو تو ہو تسکینِ دل | 
| آج کل ہیں نہایت پریشاں سے ہم | 
| بس کہ اُن کی گلی مل گئی، سو ابھی | 
| ہٹتے ہیں آرزوئے خیاباں سے ہم | 
| اُن کا اِتنا کرم بھی بہت ہے ہمیں | 
| اُن کی محفل میں بیٹھے ہیں مہماں سے ہم | 
| ایک مدت سے شاہؔد یہ ارمان ہے | 
| کوئی دم تو نظر آئیں انساں سے ہم | 
    
معلومات