جاری ہی رہتا ہے بحرِ سخا آقاؑ تیرا
آستاں سے ترے ہو غیر کہ اپنا تیرا
سب کو ملتا ہے بِنا مانگے ہی صدقہ تیرا
واہ کیا جُود و کَرَم ہے شہِ بَطْحا تیرا
نہیں سنتا ہی نہیں مانگنے والا تیرا
بخش دینا ہے، کرم کرنا ہے شیوا تیرا
سب غریبوں کو ہے تو بس ہے سہارا تیرا
تجھ سے پا کر غنی ہو جاتا ہے منگتا تیرا
واہ کیا جُود و کَرَم ہے شہِ بَطْحا تیرا
نہیں سنتا ہی نہیں مانگنے والا تیرا
سب گُنَہ دھلتے ہیں جا کے وہ ہے خطہ تیرا
دل چمک اٹھتے ہیں پا کے وہ ہے جلوہ تیرا
دو جہاں پلتے ہیں کھا کے وہ ہے دانہ تیرا
دھارے چلتے ہیں عطا کے وہ ہے قطرہ تیرا
تارے کھِلتے ہیں سخا کے وہ ہے ذرہ تیرا
کھاتے ہیں سب اے شہِ والا نوالہ تیرا
ساتھ اِس کے یہ بھی ہے معجزہ اعلیٰ تیرا
سینکڑوں کو کرے سیر ایک ہی پیالہ تیرا
فیَض ہے یا شہِ تسنیم نرالا تیرا
آپ پیاسوں کے تجسس میں ہے دریا تیرا
انبیا بنتے ہیں طالب وہ ہے جلوہ تیرا
اتقیا لیتے ہیں ہمت، وہ ہے تقوی تیرا
اَسْخِیَا منگتے ہیں جِس کے، وہ ہے کوچہ تیرا
اَغْنِیَا پَلتے ہیں دَر سے، وہ ہے باڑا تیرا
اَصْفِیَا چَلتے ہیں سَر سے، وہ ہے رَسْتہ تیرا
واہ کیا کیا تمہیں دے دی ہیں خدا نے شانیں
کہ ہر اِک شان پہ قرباں ہیں ہزاروں جانیں
جن کے دل پر لگیں ہوں مہریں وہ یہ کیا مانیں
فرش والے تری شوکت کا علو کیا جانیں
خسروا عرش پہ اُڑتا ہے پھریرا تیرا
تیرے در کی ہے گدائی بے نظیر و بے مثال
کچھ بھی پرواہ نہیں ہم کو, ہے کیا مال و منال
تیرے در پر ہی تو ہے تکیہ اِدھر سے تُو نہ ٹال
تیرے ٹکڑوں سے پلے غیر کی ٹھوکر پہ نہ ڈال
جِھڑکیاں کھائیں کہاں چھوڑ کے صدقہ تیرا
مرتبہ سب سے جدا ہے, کہ ہو امت کے نقیب
دو جہاں میں ہے خدا نے کِیا تم ہی کو نجیب
جتنے تم ہو کوئی اُتنا نہیں ہے رب کے قریب
میں تو مالک ہی کہوں گا کہ ہو مالک کے حبیب
يعنی محبوب و محب میں نہیں میرا تیرا
کیوں شَفق کو تَکیں کیوں چاند ستارہ دیکھیں
کیوں گلستاں کو تَکیں کیوں کِھلا غُنچہ دیکھیں
سامنے تُو ہے تو رُخ کیسے اِرم کا دیکھیں
تیرے قدموں میں جو ہیں غیر کا منہ کیا دیکھیں
کون نَظروں پہ چڑھے دیکھ کے تَلوا تیرا
حشر میں مجھ پہ ہوئی تیری عنایت کتنی
تُو نہ ہوتا تو مِری ہوتی خجالت کتنی
تیرے آنے سے ہوئی مجھ کو مسرت کتنی
ایک میں کیا مِرے عِصْیَاں کی حقیقت کِتْنِی
مجھ سے سو لاکھ کو کافی ہے اِشارہ تیرا
مرے آقاؑ بے نواؤں کو غنی کر دے، کہ ہے
منبعِ جود و سخا, ہم کو سخی کر دے، کہ ہے
تُو ہے مختار, عنایت مجھے بھی کر دے، کہ ہے
مری تقدیر بُری ہو تو بھلی کر دے، کہ ہے
محو و اثبات کے دفتر پہ کڑوڑا تیرا
تُو جو چاہے تو ابھی بگڑے ہوے کام بَنیں
تُو جو چاہے تو ابھی ڈوبے ہوے لوگ تَریں
تُو جو چاہے تو ابھی میرے مقدر بھی کُھلیں
تُو جو چاہے تو ابھی میل مِرے دل کے دُھلیں
کہ خدا دل نہیں کرتا کبھی میلا تیرا
جانے محشر میں گُنہ گار پہ کیسی گزرے
خوار و نادار پہ لاچار پہ کیسی گزرے
کیا خبر تیرے خطاوار پہ کیسی گزرے
دور کیا جانیے بد کار پہ کیسی گزرے
تیرے ہی در پہ مَرے بے کس و تنہا تیرا
دکھ بھرا خط کِسے بجھوائیے، کس سے کہیے
درد اپنے کِسے بتلائیے، کس سے کہیے
چاک سینہ کِسے دِکھلائیے، کس سے کہیے
کس کا منہ تکیے، کہاں جائیے، کس سے کہیے
تیرے ہی قدموں میں مِٹ جائے یہ پالا تیرا
سختیِ دل کِسے بتلائیے، کس سے کہیے
کٹتی شہ رگ کِسے دِکھلائیے، کس سے کہیے
غم گسار اپنا کِسے پائیے، کس سے کہیے
کس کا منہ تکیے، کہاں جائیے، کس سے کہیے
تیرے ہی قدموں میں مِٹ جائے یہ پالا تیرا
جامِ مے بزم میں چھلکائیے، کس سے کہیے؟
ابر فضل اپنے کا برسائیے، کس سے کہیے؟
اب حضور آپ ہی فرمائیے، کس سے کہیے
کس کا منہ تکیے، کہاں جائیے، کس سے کہیے
تیرے ہی قدموں میں مِٹ جائے یہ پالا تیرا
مصطفی مجتبی اللہ کے چمکتے ہوے ماہ
فیض لیتے ہیں تُجھی سے سبھی اے نورِ الہ
یہ ستارے سبھی, یہ شمس و قمر، لیل و صباح
حَرَم و طیبہ و بغداد جدھر کیجئے نِگاہ
جوت پڑتی ہے تِرِی نور ہے چھَنتا تیرا
کیا بتاؤں کہ گناہوں میں ہی گزرا ہے شباب
اب بُڑھاپے مِیں نہیں مجھ مِیں عبادت کی سُداب
آہ، ہوتا ہے مکمل مِری ہستی کا نِصاب
مَوت سُنتا ہوں سِتَم تَلْخ ہے زہرابہِ ناب
کَون لادے مُجھے تَلووں کا غسالہ تیرا

0
368