ہر سمت شہرِ یار میں شور اِک یہی اُٹھا |
آئی بلا، لے قہر پڑا، دل لہو ہوا |
پہلے تو بزمِ ساقی میں دورِ غزل چلا |
پھر ایک اِک کو جامِ شرابِ کُہن مِلا |
محشر کے دن بھی تازگی اپنی نہ جائے گی |
کھائی ہے یار ہم نے تِرے دشت کی ہوا |
سُن کر جِسے, ہوں چاک گریباں, سبھی یہاں |
اے اہلِ انجمن! میں ہوں ایسا غزل سَرا |
معلومات