ہر سمت شہرِ یار میں شور اِک یہی اُٹھا
آئی بلا، لے قہر پڑا، دل لہو ہوا
پہلے تو بزمِ ساقی میں دورِ غزل چلا
پھر ایک اِک کو جامِ شرابِ کُہن مِلا
محشر کے دن بھی تازگی اپنی نہ جائے گی
کھائی ہے یار ہم نے تِرے دشت کی ہوا
سُن کر جِسے, ہوں چاک گریباں, سبھی یہاں
اے اہلِ انجمن! میں ہوں ایسا غزل سَرا

0
97