کوئی خواب وقت کی ریت پر کبھی استوار کروں تو کیا! |
دلِ غم زدہ! غلطی تو ہے اسے بار بار کروں تو کیا! |
شبِ حزن تیرا خیال ہے دمِ صبح تیرا ملال ہے |
کوئی بوجھ آنکھوں پہ ڈال کے انہیں اشکبار کروں تو کیا |
تری آس میرا خلل سہی ترا ہجر میرا قصور ہے |
تجھے سوچنا ہے زیاں مرا ترا انتظار کروں تو کیا! |
نہیں سہل شوق کا ماجرا تجھے کیا خبر تجھے کیا پتا |
ہے یہ مدعا! میں ہوں مبتلا! تجھے کیا خبر تجھے کیا پتا |
کبھی ضبطِ حال سے حوصلہ تو کبھی امید پہ اکتفا |
میں مغالطوں میں رہا بسا تجھے کیا خبر تجھے کیا پتا |
سرِ شام روز ہو اک کسک رہے کوئی یوں بھی کب تلک |
یہ وہ رنج ہے مرے آشنا تجھے کیا خبر تجھے کیا پتا |
کسی مصروت سڑک پر |
جانے کیا بوجھ اٹھاۓ ہوۓ ہوں |
اک ترا غم ہے سو ہے |
کچھ طمانچے کھا کے |
وقت کے میں |
گھر کی روٹی بھی چلاۓ ہوۓ ہوں |
وہ داستانِ شبِ وصل کیا سنائیں تمہیں |
کہ اے رقیب بجز رائگانی کچھ بھی نہیں |
اذیتیں، یہ اداسی، یہ بے دلی، یہ فراق |
ہیں خلقِ دشتِ جنوں اور فانی کچھ بھی نہیں |
عجب ہے آس کا لافانی دور جس میں زیبؔ |
زمینی کچھ بھی نہیں آسمانی کچھ بھی نہیں |
ذہن میں کچھ ایسے خیالات کا دھواں ہے کہ کچھ عجب منظر ہے جو یقین اور گمان کے بیچ ایک ربط قائم کیے ہوۓ ہیں جانے جھکاؤ کس طرف ہو۔ جیسے یقین اور گمان سے مساوی جنگ ہو۔شاید کسی پر لطف حقیقت کا عیش اٹھاتے ہوۓ یا کسی گمان کے گمان میں تباہ حال کچھ پتا نہیں۔جیسے دہر میں ایک وسطی لے |
ہو جو یقین و گمان کو دائیں بائیں ٹکاۓ ہوۓ ہے۔ اور شاید یہی ایک دشتِ دوام ہے اور پھر رہروۓ شوق اسی لے پر برہنہ پا شکستہ حال بھاگتے ہیں اور کچھ گمان کی دسترس میں آ جاتے ہیں، وجود تو شاید یہیں ہو مگر ذہن کسی اور دنیا میں آباد ہو جاتا ہے۔ اور کچھ یقین یعنی حقیقت کے ہاتھوں ہلاک ہو جاتے۔ ہاں مگر حقیقت صرف وجود کو شکست دے کر ناتواں بنا دیتی ہے اور سحر انگیز گمان روح کو تباہ کر دیتا ہے ۔شاید یہی زندگی ہے۔ |