Circle Image

اسامہ اکبر زیبؔ

@usama2255

کیسی منزل کیا رستہ!
کہ کہاں کے ہیں ہم کس سے وابستہ؟
دل میں کچھ ایسے سوال اٹھتے رہتے ہیں
سہمے ہوۓ سے خیال اٹھتے رہتے ہیں
اول تو خودی یہ مصیبت سر لی تھی
اک ہی نادانی اکثر کر لی تھی

0
20
کتنے رنگوں کے پہنے ہوۓ ہیں مکھوٹے
یہ ذات کے اونچے لیکن سوچ کے چھوٹے

0
12
نہیں سہل شوق کا ماجرا تجھے کیا خبر تجھے کیا پتا
ہے یہ مدعا! میں ہوں مبتلا! تجھے کیا خبر تجھے کیا پتا
کبھی ضبطِ حال سے حوصلہ تو کبھی امید پہ اکتفا
میں مغالطوں میں رہا بسا تجھے کیا خبر تجھے کیا پتا
سرِ شام روز ہو اک کسک رہے کوئی یوں بھی کب تلک
یہ وہ رنج ہے مرے آشنا تجھے کیا خبر تجھے کیا پتا

0
12
آوارہ آرزوئیں، گماں اور خامشی
اک وقت سے اداس ہے ماحولِ زندگی
کچھ دوست جو ہمیشہ مرے ساتھ ساتھ ہیں
میرے خیال میری امید اور بے کلی
میلوں کہیں زمیں کے کنارے پہ ہوں مگر
وہ شہر میرے دھیان میں آباد اب بھی ہے

0
12
میرا دشمن مرا یقیں نکلا
زیبؔ دل کمتر و کمیں نکلا
مجھ کو تھا خطرۂِ دیارِ رقیب
شبِ سوزاں تُو بھی وہیں نکلا
وقت رہتے ہی دھر دیا الزام
یعنی تُو تو بہت ذہیں نکلا

0
15
بسے ہیں آ کے کہاں غیر ہیں در و دیوار
حیات مائلِ چپ مجھ کو جوشِ استفسار
یہ لامکانی کی صورت یہ وحشتوں کا حصار
یہ گرد گرد کا عالم یہ صحبتِ آزار
یقیں کا ہے سرے کوۓ گمان میں پرچار
عجب نہیں کہ تماشائی خود ہیں خود فنکار

0
8
دیارِ آس میں یوں تجھ سے ہمکنار ہوۓ
نُقوشِ زیست سرابوں پہ اُستوار ہوۓ
شبِ شکنجۂِ حیرت میں آ کے سوچتے ہیں
کہ کس طرح سے وہ گھر بار گرد و بار ہوۓ
تُو بھی شریکِ فلاں بن فلاں ہوئی اور پھر
غبارِ شہر و جہاں ہم بھی روزگار ہوۓ!

0
10
آسرا جس نے دیا خود کو وہاں باندھ لیا
دل میں گویا کوئی مفلوج گماں باندھ لیا
کیا عجب کوچۂ و دیوار کی الفت ہے مجھے
دل کہاں رکھا مگر ربط کہاں باندھ لیا
کیسی دھتکار سے روندے گئے عشاق و دل
یعنی تاریخ نے پہلو سے زیاں باندھ لیا

0
12
آپ بھی میری دسترس میں نہیں
زندگی بھی کٹھن ہے کیا کیجے

0
15
شب کی خاموشیوں میں شورِ تمنا کے ساتھ
کتنی ترتیب سے میں خود کو رکھا بے ترتیب
کیا تماشا ہے کہ اس کمرے کی دیواروں پر
کوئی نظریں ٹکا کے لیٹا رہا بے ترتیب

0
6
جاناں!
تمہیں حسرت ہے کہ کوئی دشت سخن کا مسافر تمہیں لفظوں کی
صورت کچھ گمان بخش دے مگر اسے یہ ڈر ہے کہ تم لفظوں میں کھو
کر متاع حیات نہ کھو دو۔ یہ ایسا دشتِ سراب ہے جس کے وسط
میں تم کھو سکتی ہو اور یہ بھی جان لو اس وسطی نرک کی کوئی رداس
نہیں۔اے مرے دوست اس سراب میں الجھے ہوؤں کا کوئی ٹھکانہ

21
کسی مصروت سڑک پر
جانے کیا بوجھ اٹھاۓ ہوۓ ہوں
اک ترا غم ہے سو ہے
کچھ طمانچے کھا کے
وقت کے میں
گھر کی روٹی بھی چلاۓ ہوۓ ہوں

0
20
کسے معلوم تھا یوں بھی ہوگا
بے خبر ذات کے فرقوں سے
ایک رشتے میں سماۓ ہوۓ ہم
ایک تعمیرِ مکاں میں مصروف
ریت کے جھانسے میں آۓ ہوۓ ہم
نہ ہمیں کوئی یقیں ذات پہ ہے

0
21
اس طرح صحنِ شبِ ہجر میں آتا ہوں میں
زندگی ناچتی ہے اور نچاتا ہوں میں
شام کے آتے ہی یہ راگ اٹھاتا ہوں میں
چرخ کی سرخی سے وحشت کا ہو جاتا ہوں میں
روز ہر روز یہ ان گنت امیدوں کے بیچ
اک ترنم سے ترے رنج کو گاتا ہوں میں

0
18
اے مرے گزرے ہوۓ وقت اے ماضی کے دوست
آج کیا طرزِ گماں ہے؟
کیا خلش کیسی چبھن جس کے لپٹیے میں ہے دل
سمت ہر سمت اندکار ہے اور میں!
ایک دیوار ہے اور میں!
آج کیا وہم ہے دل کو؟

2
48
شبِ وصال زباں سے خدا خدا نکلے
میں تو کچھ اور ہی سمجھا تھا آپ کیا نکلے
ہے یہ جدید صدی اور آرزو میں ہم
عجب نہیں کہ بیک وقت بے وفا نکلے
اٹک کے رہ گئے ہیں کار گاہِ وحشت میں
وہ فیصلہ جو سناۓ تو مدعا نکلے

0
25
خود کو گماں سے بھر لیا خون جگر پیے رکھا
ہجر کے ہجر کاٹے ہیں دشت کے دشت سر کیے
دار و رسن کی بات دور، درد ہے سانس سانس میں
نقطۂِ بے خبر کے ساتھ منزلوں کے سفر کیے

0
21
کل شب عجب معاملہ درپیش تھا مجھے
دیوار دیکھتا رہا ہر زاویے سے میں
ہر سوچ اک چبھن کی طرح لگتی ہے مگر
افسوس ہے کہ باز نہیں سوچنے سے میں
اب تو اٹَا ہوں جانے یہ کس گرد و بار میں
کیا دکھ کروں! کہ شامِ تمنا کے ڈھب گئے

0
22
کبھی گام گام یہ چاہ تھی ترے پاس پاس رہا کریں
ابھی راہ راہ کی مشکلیں جنہیں صبح شام سہا کریں

0
17
رہی تنگئی دلِ بے خبر کوئی زور اس پہ نہ کچھ اثر
کہاں عادتوں میں بہک گیا کہاں راستوں میں بھٹک گیا
کبھی شوق شوق کی بات تھی ترے آستاں کے قریب تھا
ابھی خار خار سی رنجشیں تجھے بے سبب میں کھٹک گیا

0
31
کیا تم کو یاد ہے وہ لڑکپن کی آرزو؟
جاناں! وہ صبح شام وہ ہر بات کے سبب
میرے تصورات میں آتی رہی ہو تم
میں سوچتا رہا ہوں ملاقات کے سبب

18
اس شہرِ بار میں کہیں مصروف و محوِ کار
گویا نگاہِ شوق سے یکسر بڑھیں گے ہم
چلتے ہوۓ کہیں کسی چوراہے کے قریب
دورانِ چرخِ دہر کبھی تو ملیں گے ہم

24
کیا ہوا گر نہیں چین کا کوئی پل
ہاتھ پر ہاتھ رکھ کے مل اور چلتا چل

22
شاملِ صحبت بزمِ عدو میں آپ؟ حضور آپ؟
غیر میں رقصاں، محو غلو میں آپ؟ حضور آپ؟

23
کیا پتا تھا کہ تری آس لپٹ جاۓ گی
لگتا ہے کمرے میں ہی عمر نپٹ جائے گی

22
شہر کی رونقیں تو ٹھیک مگر
نوکری! جو تھکن سے چور کرے؟
جو تجھے دیکھ لے وہ تجھ سے عشق
اک نہ اک بار تو ضرور کرے

23
دشتِ غبارِ تمنا ہے دفتر اپنا
اک کمرے کو بنا رکھا ہے گھر اپنا

18
نہیں سنی مری عرضی حضور آپ کی خیر
تو کیا وہ رشتہ تھا فرضی؟ حضور آپ کی خیر
بھلا مجالِ دلِ شوق کیا کہ کچھ میں کہوں؟
حضور آپ کی مرضی حضور آپ کی خیر

16
اگر ٹھان لیں! کیا نہ کر جائیں گے
بکھرتے بکھرتے نکھر جائیں گے

23
خامشی سے کسی حالت پہ نچھاور تو ہیں
دم بہ دم سوزِ تحیر میں پڑۓ ہوۓ لوگ
روز آنگن میں کہیں بکھرے ہوۓ ملتے ہیں
کتنے ہم جیسے تمنا میں اڑے ہوۓ لوگ
خواب در خواب ہے بے راہ روی اور غبار
نیند جو ہجر کے شانے پہ گراں رہتی ہے

17
ہیں سات چہرے پہ تل، پیرہن کے رنگ بھی سات
خمارِ وصل میں دل کو ہیں یاد چودہ نکات

30
ہوا ہے شاہ پریشان، تم ڈٹے رہنا
مٹاۓ کیا تمہیں زندان! تم ڈٹے رہنا
بلا سے سر ہو قلم کوئی ڈر نہیں ہے کہ ہم
تمہارے ساتھ ہیں عمران تم ڈٹے رہنا
رہیں گے منکرِ دولت رہیں گے منکرِ شاہ
ہے یہ صدا، مرے کپتان! تم ڈٹے رہنا

0
28
امیرِ شہر تری موت ہے ہمیں مقصود
کہ تُو ہے خصلتِ نمرود تُو ہے مثلِ یہود
نہیں ہے خوف، ہے اللہ کے ہاتھ بود نبود
کہ کٹ گریں گے نہیں مانیں گے نظامِ قیود
سو اب کی بار وہ قانون دان آۓ گا
ہمیں یقین ہے عمران خان آۓ گا

0
18
ضبط کے جتنے تقاضے تھے ادا کر لیے ہیں
کہ تجھے چھوڑ کے ہم اپنا بھلا کر لیے ہیں
غلطی ہوئی جو ملنے پہ رضا کر لیے ہیں
اور الزام میں سر، بندِ قبا کر لیے ہیں
اپنا ہر آن میں ہے بارِ مروت سے گریز
خواہشِ غیر کو سامانِ دشا کر لیے ہیں

0
32
تُو جو اس طرح سے عتاب میں ہے
جانَ جاں! میری جاں عذاب میں ہے
آنکھ کھلتے ہی ذہن میں ہے تُو
آنکھ لگتے ہی میرے خواب میں ہے
مختصر ماجرا بتاؤں اگر
درد ہی درد انتخاب میں ہے

0
35
خواہشیں دل میں دباۓ ہوۓ شمشان ہوں میں
اے ستم گر ذرا تو سوچ کہ انسان ہوں میں
آرزو مند رہا دہر کی وحشت میں بھی دل
آپ اپنی روش و گھو سے پریشان ہوں میں
آپ تھے میری تمناؤں میں رقصاں؟ یعنی
مطمئن تھا کسی پیمان پہ! حیران ہوں میں!

0
48
خواہشِ لطفِ گفتگو لفظِ شرر کے بعد بھی؟
دل! کہ فسردہ تک نہیں ایسی خبر کے بعد بھی!
ایک اثر ہے بے نمو ایک اثر کے بعد بھی
اجرتِ دل کا حوصلہ؟ دامِ جگر کے بعد بھی!
ایک سفر ہے سامنے ایک سفر کے بعد بھی
منزلِ رفتگاں ہے پیش وحشتِ گھر کے بعد بھی

0
25
دلِ بے کساں کو یوں تار تار کیا گیا
کہ بھلے سے آپ کا اعتبار کیا گیا
تری یاد سے جسے ہمکنار کیا گیا
وہ مرا ہی دل تھا! ذلیل و خوار کیا گیا
یہ حماقتیں ہی تو تھیں کہ ملبۂِ آرزو
ترے آستانے پہ اُستوار کیا گیا

0
23
ہے ایک جبرِ مسلسل گماں کے پیشِ نظر
کوئی صلہ بھی ہو اس امتحاں کے پیشِ نظر
عجب جہانِ خرد ہے بتاں کے پیشِ نظر
خیالِ زعم ہے سود و زیاں کے پیشِ نظر
ہمارے بعد کہے ہیں ہماری مرقد پر
سلام عرض ہو ان رفتگاں کے پیشِ نظر

0
29
پیاس ہے گرچہ عمرِ رواں کی، گرچہ تھکن ہے دشتِ گماں کی
میرے لبوں کو تیرا بدن ہے، میری کمر کو تیری کمر ہے
تیرہ شبی میں چھو لیا میں نے ہاتھ لگا تو آگ تھی جیسے
جسم تمہارا! یعنی شرارہ یعنی خماری یعنی شرر ہے

0
34
دامِ جگر ہے ، شوقِ سفر ہے، سوز و اثر ہے
ایک خبر ہے، ایک ڈگر ہے، بارِ دگر ہے
خلوت و وحشت، حلقۂِ عجلت، منظرِ فرقت
سوچیے گر تو! زیست شرر ہے زیست ضرر ہے
دشتِ محبت؟ دشتِ ضرورت؟ دشتِ ملامت؟
خیر ہو اس دیوانے کی اس کو خواہشِ گھر ہے

0
21
زندگی آس کے ٹھکانے پر
روٹھ جاتی رہی منانے پر
سوگواری تھی تیرے جانے پر
سوگواری تھی تیرے آنے پر
اپنے غم کی تپش میں اُکتا کر
تھوک دیتا ہوں میں زمانے پر

0
35
شامِ بے دلی میں ہے اک گمان بار بار
جاتا ہے تری طرف میرا دھیان بار بار
رات کے اندھیروں میں ایک بھٹکا راہرو
دیکھتا ہے گھبرا کے آسمان بار بار
ہم فنا کے تھے ہی تھے آرزو بھی سر لے لی
پیش ہے یہ منزلِ امتحان بار بار

0
28
اوڑھ کر ہجر میں! غبار ہوا
سوگواری تھی، سوگوار ہوا
مجھ پہ پہلے تو تیرا وار ہوا
پھر میں حالات کا شکار ہوا
اک ہی رودادِ دل ہے جانِ من
بے طرح سے ذلیل و خوار ہوا

30
فراق سہل کہاں، سوچ لو ذرا! کہ نہیں؟
تمہیں یہ خوب پتا ہے اے دلربا کہ نہیں؟
ہزار مجھ سے گریزاں تھے سوجھ بوجھ کے ساتھ
جنوں بہ دستِ جنوں ہوۓ مبتلا کہ نہیں؟
خرد بہ دستِ خرد آرزو سے نا واقف
مگر میں نے تمہیں الجھا کے رکھ دیا کہ نہیں؟

0
31
جو یوں لپٹی ہوئی ہے تُو مجھ سے
کس قدر جلتا ہے عدو مجھ سے
کبھی کیجو تُو گفتگو مجھ سے
ایک پہلو ہے بے نمو مجھ سے
وصل! گویا خیالِ تہہ در تہہ
کیسے ہو ترکِ آرزو مجھ سے

0
41
زیست! جو طرزِ گماں سے کسی فنکاری میں
آدھی مشکل میں ڈھلی آدھی اداکاری میں
آج پھر ایک ہواۓِ شبِ ناداری میں
ایک اور سال ڈھلا حالتِ بےزاری میں
ہاں وہ ہر سلسلۂِ عہدِ وفا تھا بے سود
ہاں وہ ہر منزلِ قربت کا گِلہ بود نبود

0
20
لڑ جھگڑ کے کیا برباد شبِ وصل کا لطف
وہ مریضہ تھی دمے کی میں تھا تمباکو نوش

0
37
صورتِ آئینہِ دل بھی ہے کہاں پہلے سی
کچھ تو اس کو بھی بگڑنا تھا یقیں کرنے کے بعد
وصل کی ایک عجب شکل تصور میں تھی
اس مکاں میں نہیں تم، مجھ کو مکیں کرنے کے بعد

0
26
صد لقمۂِ شرر سے فریقِ حیات نے
کیا کیا دکھاۓ رنگ طریقِ حیات نے

0
27
درد سے جڑ گئے نسب میرے
چھوڑیے آپ تھے ہی کب میرے
بے دلی، آس، ہجر، وحشت، سوز
لمحۂِ شوق میں ہیں سب میرے
آپ کا اعتبار کر لیا تھا
دیکھیے کام ہیں غضب میرے

0
49
کچھ تسلی ہو کچھ رعایت ہو
اک ملاقات کی سہولت ہو
آپ کا قرب گرچہ سخت سہی
اس ضرورت سے کیا شکایت ہو
اک تسلسل سے سانس جاری رہے
درد میں چین کی ملاوٹ ہو

0
37
کوئی تو تھا یہاں! تھا نا؟ تمہیں بھی یاد ہے کیا؟
وہ جو تھا کوۓ تمنا سو وہ آباد ہے کیا؟
مجھ کو معلوم تھا گویائی کے لمحے ہیں فریب
وہ فریب آس ہے اب اور بہت شاد ہے کیا؟
ڈھل چکی زورِ تمنا میں شبِ خلوت بھی
دیکھیے دن میں کہیں کچھ نئی ایجاد ہے کیا؟

37
زیست نے کتنی آس چھانی ہے
رائگانی ہی رائگانی ہے
اب کوئی بھی کسی کا دوست نہیں
اب فقط بزدلی نبھانی ہے
چار سو ہیں درِ گمان و فریب
ہم نے یہ جان ہار جانی ہے

2
35
ایک دل تھا مرا ڈبونے کو؟
دکھ ہوا اور کیا تھا ہونے کو!
تکیے چادر سبھی بھگونے کو
موندے منہ چلتے ہیں بچھونے کو
دل رُکا تو نہیں، بجھا ہوا ہے
دیجیے چابی اس کھلونے کو

0
28
کوئی شکایت ہے، کہہ مجھ کو
گر ہے محبت! تو سہہ مجھ کو
تم کو اڑا لے جاؤں لیکن
دکھتی نہیں کوئی رہ مجھ کو
شوق نے ریت بنا ڈالا ہے
چھان لے اب تہہ در تہہ مجھ کو

0
32
جیسے جیسے دھنس رہا ہوں میں
اپنے کیے پر ہنس رہا ہوں میں
ایک اور سال ڈھلا یادوں میں
لیکن ٹس سے مَس رہا ہوں میں
ایسی حبس بھری سانسیں ہیں
جیسے تیسے بَس رہا ہوں میں

0
30
ایک عجب خرابئِ سلسلۂِ گمان میں
شورِ ہوا زمین پر گرد ہے آسمان میں
وحشتِ دل کہ دم بہ دم، رہیے گزشتگان میں
اور یہ ملبۂِ وجود جلتا ہے خاکدان میں
راہِ نجات اک طرف سوزِ حیات اک طرف
وقت نے کھینچ دی لکیر، اور میں ہوں درمیان میں

0
25
ہم نے مانگی تھی مہلت ہجر کے زمانے سے
اور رینگتے آۓ دل کے کارخانے سے
مطمئن نہیں ہیں ہم، کارِ باز آنے سے
یعنی زندہ رہتے ہیں خود کو کاٹ کھانے سے
ہم ہیں کیسے شوریدہ، تُند خوۓ گرویدہ
جان پیاری ہے ہم کو آپ کے بہانے سے

0
24
جو نگاہ اٹھتی ہے اس طرح مجھے آسماں پہ یقین ہے
نہیں نکلا کام یقین سے سو اب اک گماں پہ یقین ہے
مجھے آرزوؤں نے مات دی مجھے فیصلوں نے فنا کیا
مگر ایک آس ہے آخری، مجھے رفتگاں پہ یقین ہے
مجھے محترم ہے گلہ ترا مری گردشوں کو سمجھ ذرا
مری داستاں پہ یقین کر، ترے آستاں پہ یقین ہے

0
32
جز گماں دل میں کچھ اندیشہ نہیں
اب کسی کو بھی مجھ سے خطرہ نہیں
کتنی مہنگی پڑی ہے تیز روی
زندگی ہے، مگر میں زندہ نہیں!
تیرے اور میرے درمیاں جاناں
اب فقط فاصلے ہیں، رستہ نہیں

0
19
جس کی تصویر سے ہر غم کو جھٹک جاؤں میں
پھر سے یوں ہو کسی لڑکی پہ اٹک جاؤں میں
کس کو معلوم ہے آتے ہوۓ لمحوں کی تپش
یہ بھی ممکن ہے کہ ہر اک کو کھٹک جاؤں میں
کیا پتا میرا بھی اور گردشِ ایام کا بھی
کب مکر جاؤں کھسک جاؤں سٹک جاؤں میں

0
114
بلا سے کچھ بھی ہوں، بیوپارِ آرزو تو نہیں!
میں زیبؔ! منکر و غدّارِ آرزو تو نہیں!
عجیب وہم سے آکار دھیان میں آۓ
یہ نقشۂِ در و دیوارِ آرزو تو نہیں؟
کسی بھی طور کہیں کچھ سکوں کی سانس نہیں
حیات حاصلِ انبارِ آرزو تو نہیں؟

50
چل کہ کوئی سراب دے مجھ کو
اپنی قربت کا خواب دے مجھ کو
مطمئن بیٹھنا بھی وحشت ہے
عادتوں میں شتاب دے مجھ کو
ایک امید سی دکھا پہلے
پھر تمنا میں داب دے مجھ کو

0
52
ایک طوفان تجھے دھیان میں لانے سے اٹھا
آخرش ہار کے دل ضبط کے خانے سے اٹھا
اٹھ گیا عالمِ وحشت کی ہر اک شے سے دل
درِ جاناں سے نہ ہر چند اٹھانے سے اٹھا
دربدر ہے دلِ بے بس بھی، شکستہ ہے ذات
اور ہر خواب مرا نیند کے شانے سے اٹھا

0
35
ہر وقت یہی ضد ہے کہ پہلو میں نہیں ہے
دل ایک کمینہ مرے قابو میں نہیں ہے
کیا شکوۂِ دل کیجیے اس شوخ ادا سے
یعنی جو مزہ چپ میں ہے تھُو تھُو میں نہیں ہے
یا تو میں کسی حال میں بے حال ہوں یا پھر
تاثیر کوئی زلف کی خوشبو میں نہیں ہے

0
51
نہ دل و دماغ پہ زور کچھ نہ خرد کے پاس فرار ہے
کہ قفس قفس میں ہے اک بلا، جو نفَس نفَس پہ سوار ہے
یہاں ایک روز کی بات کیا، جو نہ درد ہو تو حیات کیا
میں وہی ہوں خامئ بے کساں جسے خلوتوں میں قرار ہے
وہی مستقل کے سے حال میں کہیں کھو گیا ہے فراق بھی
نہ ہے آرزو دلِ زار میں، نہ وہ عادتیں نہ وچار ہے

0
35
میں ہوں بے گھر و دلِ بےخبر جسے زندگی نے بھلا دیا
کبھی فیصلوں میں الجھ گیا کبھی راستوں نے تھکا دیا
یہ عجیب طرزِ حیات ہے جو سمجھ نہ آۓ وہ بات ہے
کبھی بے خودی سے مزہ ملا کبھی آگہی نے ڈرا دیا
میں کہ ڈوبتا ہوا رم بہ رم اسے دیکھتا رہا غور سے
جسے کھینچنا تھا ضرر رساں مجھے زیست نے وہ سِرا دیا

0
41
خوگرِ درد پہ ہر چند سعی کر کر کے
آج اس شوخ کا بھی طرزِ ستم ٹوٹا ہے

0
32
ایک انہونی تھی آخر کو وہ بھی کر گئے ہم
مرنا تھا کس کے لیے کس کے لیے کر گئے ہم

0
406
کہاں اڑا لے گئی ہے غبارِ پیشِ سفر
کہ دل میں ایک خلش تھی سو وہ خلش بھی گئی

0
57
کتنے برس گزر گئے ہیں اک تلاش میں
جو شخص بھی ملا ہے مجھے بے تپاک تھا
اس کے فراق میں ذرا فرصت سے دیکھا تو
میں بھی ہلاک تھا مرا دل بھی ہلاک تھا

0
43
ہے وہ مقامِ جبر دلِ آرزو کے ساتھ
تجھ سے نکلتا ہوں میں نئی جستجو کے ساتھ
مجھ کو بھی نوکری کے لیے کوچ کرنا تھا
اس نے بھی دوستی لگا لی ہے عدو کے ساتھ
سب وعدے ایک معنی میں بے معنی لگتے ہیں
اچھا ہے یہ بھی، بچ گئے ہیں آبرو کے ساتھ

0
27
نسبت ہے مشکلات سے، میری قبیل دکھ
یعنی نفس نفس میں رواں ہے ذلیل دکھ
اک دشت کے کٹہرے میں دونوں ہیں روبرو
مجرم ہوں زندگی کا میں، میرا وکیل دکھ
اس عالمِ قفس کا ذرا دیکھیے تضاد
ہے مختصر حیات بہت اور طویل دکھ

0
39
قصۂِ دل کو ملامت سے شغف ہے کہ نہیں
ایسی تھُو تھُو کوئی تمثیلِ صدف ہے کہ نہیں
عہدو و پیماں تو بجا صورتِ عجلت میں مگر
دل کو یہ وہم، اسے نسبتِ صف ہے کہ نہیں
ایک بہکاوے میں آیا ہوا بیچارہ، میں!
سوچتا ہوں کہ کوئی میری طرف ہے کہ نہیں

0
406
زندگی کٹ رہی ہے ایسی پریشانی میں
کوئی حیرانی نہیں ہے کسی حیرانی میں
فیصلے ضبط کے آگے ہوۓ کتنے لاچار
ہم کہاں آ کے رکے جبرِ پشیمانی میں
کتنے لمحات ہوۓ سوزِ تحیر میں بھسم
بھاگ کر جائیں کہاں صورتِ لافانی میں

0
397
دل کو بہت سکون ہے کوئی شتاب ڈھونڈیے
زیبؔ فریب کھایے اور سراب ڈھونڈیے
عادتوں میں وہی دلِ خانہ خراب ڈھونڈیے
کوئی تو چال کیجیے سوزشِ خواب ڈھونڈیے
صبح کو نیند لیجیے رات کو تاب ڈھونڈیے
خود کو تباہ سوچیے خود کو خراب ڈھونڈیے

0
38
اک خلش ہے کہ جو ہر شب دلِ ناکام کے ساتھ
کھیل سا کھیلتی ہے نسخۂِ آلام کے ساتھ
مجھ کو اب تیری تمنا نہیں پھر جانے کیوں
رہتی ہے ایک اداسی سی مجھے شام کے ساتھ
ایک بے معنی تسلسل میں کہیں اٹکا ہے دل
یوں خلل ہے کہ جیے جاتے ہیں ابہام کے ساتھ

0
40
نہ نقش ہے نہ گماں! یہ عجیب بات نہیں؟
کہاں ہے تُو، میں کہاں! یہ عجیب بات نہیں؟
بہ دستِ کارِ زیاں! یہ عجیب بات نہیں؟
ہے لطف، لفظِ گراں! یہ عجیب بات نہیں؟
وہ سوزِ ہجر کہ جو موت دِکھتا تھا لیکن
ہیں مطمئن دل و جاں! یہ عجیب بات نہیں؟

0
64
رات بھر چھت پہ ٹہلنا کوئی آزار لیے
کتنی شب میں نہیں سویا دلِ ناچار لیے
تجھ کو معلوم ہے کتنے ہی کٹھن ہیں رستے؟
ہر قدم چلنا ہے یاں درد کے افکار لیے
ایک بے راہ روی سامنے ہے مدت سے
میں بھٹکتا ہوں جہاں ذات کو مسمار لیے

0
47
کیا ہے خلا میں محوِ جرس سب تہس نہس
پھر بڑھ رہا ہے حبسِ قفس سب تہس نہس
چل اے دلِ شریر ادا اس کو بھول جا
کیوں ہے شکستگی کی حوس سب تہس نہس
ہر آرزو کو وقت نے پہنچایا دار پر
پھر ان پہ کھا رہا ہے ترس سب تہس نہس

0
63
کسی شریر حسینہ کی زَد میں آیا ہوا
میں ایک شخص، خوۓ مستَرد میں آیا ہوا
دل ایک وحشی درندہ فدا تھا اس پہ بہت
سو خار کھا کے یہ اب اپنی حد میں آیا ہوا
یوں آرزوئیں ہیں میری کہ سانس سانس گھٹن
یوں ہے کہ جیسے کوئی دستِ بد میں آیا ہوا

0
118
بچھڑنے پر ہی سہی اس کا کچھ بیاں تو ملا
بچھڑتے وقت کوئی نقشِ جاوداں تو ملا
میں کیا نہ کرتا رہا کچھ نہیں ملا لیکن
میں خود کو دشتِ محبت میں رائگاں تو ملا
پھر ایک وعدے پہ ہے متفق دلِ بے بس
چلو اِسے کسی منزل کا کچھ نشاں تو ملا

0
40
تباہ حال ہے حالت درونِ شہرِ عزیز
کماں بہ دست سے رقصاں ہیں ظلمتوں کے سفیر
بچھا ہے حدِ نظر اہلِ خوۓ جبر کا جال
درندگی ہے فقط کھینچیے اگر تصویر
غریب چپ ہے کہ تقدید کا لکھا ہے مگر
بکا ہے خواہشِ دولت میں حکمراں کا ضمیر

0
42
آرزو دل کی مرے دل سے بہاۓ نہ بہے
یہ وہ معشوق نُما ہے جو ہٹاۓ نہ ہٹے
اول اول کی شناسائی کے کیا کہنے کہ جب
کچھ دِکھاۓ نہ دِکھے اور سناۓ نہ سنے
رفتہ رفتہ ہوۓ جانا ہے گریزاں آخر
ربط کے بعد کا رشتہ تو بناۓ نہ بنے

66
گرنا ہے گر بلندی سے پھر یہ اڑان ہے سراب
تیرا خیال ہے زیاں تیرا گمان ہے سراب
میں نے کیا یہ کام اگر میں نہیں جانتا مگر
آن بہ آن ہے مکَر آن بہ آن ہے سراب
کھا کے فریب کیا کرے اپنے یقیں کا شرمسار
عہد و وفا کے شہر میں دل کی زبان ہے سراب

67
راہ میں ایک کنارے پہ کھڑے سوچتے ہیں
مجھ سے واقف ہیں کئی لوگ جو ان دیکھے ہیں
کسی امید کسی راز کسی ساز کی طرح
میلوں کے فاصلے سے صحبتیں آباد ہوئیں
دور ویرانے سے آتی ہوئی آواز کی طرح
میرے ہمراہ مرے دوست مرے جان نشیں

0
28
اول اول کی آشنائی میں
میں تو خود گر پڑا ہوں کھائی میں
اب کہ تم یاد ہی نہیں آتے
کیا مزہ رہ گیا جدائی میں
کیا ہوۓ پھر تم اور میں آخر
دل کی اس زور آزمائی میں

0
56
خوب سے خوب اضطراب اور عذاب ہی عذاب
چاہتا ہے دل انقلاب، درد ہو اور بے حساب
عمر گزر ہی جاۓ گی، کوئی تو ہوگا سدِ باب
آپ کا اعتبار تھا آپ بھی ہوۓ بے نقاب
دیکھ کے مجھ کو بزم میں جھٹ سے تکلفِ حجاب
مجھ پہ گراں گزرتا ہے ان کی سرشت میں شتاب

0
70
کیسے عجب جواز کا مارا ہوا تھا میں
یعنی ترے لحاظ کا مارا ہوں تھا میں
دنیاۓ جعلساز کا مارا ہوا تھا میں
اور عرصۂِ دراز کا مارا ہوا تھا میں
مجھ کو فریب کھا کے ملا ہے بہت سکون
اک خوۓ جلد باز کا مارا ہوا تھا میں

0
63

وابستگی میں ہم سے ترے طور کیا کہیں
مطلب سے تُو ہٹا ہی نہیں اور کیا کہیں
سمجھاۓ یہ نہ سمجھا جو ٹوٹا تو کہتا ہے
دل ہے حرام خور چغل خور کیا کہیں
ہم شہر شہر پھرتے رہے تجھ سے روٹھ کر

0
117
شبِ فراق، دلِ انتظار کی دنیا
بہت کٹھن تھی ترے اعتبار کی دنیا
ترا وصال، تری آرزو، زمانۂِ دل
وفورِ رنج و ملامت، غبار کی دنیا
وہ پوچھتے ہیں مرے بعد کیا بچا ہے اب
ہے میرے پاس دلِ بے قرار کی دنیا

0
64
جب ترے لہجے میں تھوڑا سا تناؤ آیا
بس ذرا ٹیس اٹھی دل پہ دباؤ آیا
چن لیا ہے کسی آغوش کو آخر اس نے
اور دسمبر کے مہینے میں چناؤ آیا
میرے اطراف میں پھر سے ہے کوئی محوِ طواف
پھر کسی کوئے تمنا میں پڑاؤ آیا

0
51
عقل و خرد لیے ہوۓ حیران ہونے کو
ہم اس جہاں میں آۓ پریشان ہونے کو
چپ ہیں میاں ٹہل رہے ہیں صحنِ حزن میں
دل بجھ چلا ہے شام ہے سنسان ہونے کو
دل کے بھی طور دیکھیے، کس طور ہو گیا
کوۓ بتاں ہے کوچۂِ انجان ہونے کو

0
85
لکیرِ درد سے کوئی نشان کھینچتے ہیں
دکانِ گریہ سے عُشّاق دھیان کھینچتے ہیں
کبھی جو دشتِ مروت میں ہوۓ محوِ سفر
ہمارے لفظ ہماری زبان کھینچتے ہیں
وفورِ گردِ ملال اور میرا حالِ زبوں
قیامِ دشتِ جنوں کا بیان کھینچتے ہیں

0
68
دم بہ دم ایک اشک باری ہے
رات دن غم لمحوں کی شماری ہے
بنتی ہے بے دلی میں یہ ہم کو
آرزو کی یوں دست کاری ہے
تم نہ جانو گے وقت کا یہ جبر
خود سے ہر آن کی فراری ہے

0
75
ترکِ تعلقات پہ دل بے خبر ہے زیبؔ
پھر اپنے پاس ایک یہی تو ہنر ہے زیبؔ
کچھ تو لحاظ ہوتا مروت میں ہجر کا
کتنا شدید ظلم تھا جو بے ضرر ہے زیبؔ
کیسے عجب سراب میں الجھا ہوا ہوں میں
منزل کوئی نہیں مری، پھر بھی سفر ہے زیبؔ

0
65
جبر کرتے ہیں بشر جیسے ہو حیوان کی سوچ
آ کے رکتی ہے کہاں دیکھیے انسان کی سوچ
خود تحیر میں پڑی ہے کسی حیران کی سوچ
تم پہ ٹھہری ہوئی ہے ایک پریشان کی سوچ
منتشر ہیں سبھی سمتیں بھی مری حالت کی
آپ اپنے سے جدا ہے مرے وجدان کی سوچ

0
156
کتنا جدا جدا ہے ترا میرا سازِ خُو
تُو ہے نشاطِ زیست میں ہوں سوزِ آرزو
تجھ خوش ادا کو دیکھ کے حیرت سی ہوتی ہے
کس ظلم کے عوض ہمیں بخشا گیا ہے تُو
میں دشت دشت زہرِ نفس کھا کے آیا ہوں
کس کس دلِ سیاہ میں جانے سفر کیا

55
شوق کی آن بان جاتی ہے
تیرے جانے سے جان جاتی ہے
ہم سخن ور جو اٹھ رہیں واں سے
وحشتوں کی دکان جاتی ہے
گھوم پھر کے گلی گلی لیکن
گرد میرے مکان جاتی ہے

0
59
اب وہ مقامِ خطر ہے یہاں کہ ہر اک لمحہ طوفانی ہے
وصل مروت چاہے اور بچھڑنے میں جاں جانی ہے
کوئی فراغت تھی ہمیں یا مجذوبِ شوق و جنوں تھے ہم
طرزِ جبر تو دیکھیے جو کہی بات اس نے بے جا مانی ہے
دن ہو کہ شب ہو ہم ویسے بھی بد مستِ خو رہتے ہیں
ایسی وحشت طاری کر کے مثال کوئی نئی لانی ہے

0
64
اپنی کیا روداد میاں
سب کچھ بے بنیاد میاں
لاکھ بسے خلقت میں ہم
ہوۓ نہ ہوۓ شاد میاں
اک تاریخی شرارت میں
ہجر ہوا ایجاد میاں

0
57
جذبوں کے لین دین میں، بیوپاری میں نہ تھے
سن تو سہی ہم ایسی خریداری میں نہ تھے
بے فکرِ شوق، نیند پرست اور عجیب خُو
ہم کیسے بھی تھے کچھ بھی تھے عیّاری میں نہ تھے
کس طرح عہدِ ترکِ وفا کر لیا گیا
کس طرح کہہ دیا گیا ہم یاری میں نہ تھے

0
63
رمزِ تنہائی، دمِ ہجر ، دلِ زار کے ساتھ
کوئی دیوانہ لگا بیٹھا ہے دیوار کے ساتھ
تُو نہیں ہے تو ترے ہجر کی لذت ہی سہی
عمر ڈھلتی رہے گی لمحۂِ بیکار کے ساتھ
تیرے ملنے کا طریقہ بھی پہیلی سا تھا
آشنا تجھ سے ہوۓ ربط ہوا خار کے ساتھ

0
2
78
کتنے ہی حوصلے سے سہے غم خوشی خوشی
ضائع کیا ہے جذبوں کو پیہم خوشی خوشی
بس اک ترے بچھڑنے کا ڈر تھا، جو سہہ لیا
لو تیرے بعد جی رہے ہیں ہم خوشی خوشی
عشاق کی دلیر دلی، ان کا صبر دیکھ
سہہ جاتے ہیں فراق کے عالم خوشی خوشی

90
ہر نفس قصۂِ آلام کو فرحت نہ ملی
یعنی تاریخ کو تاریخ سے فرصت نہ ملی
اور آزادئِ فرقت، کوئی حسرت ہی رہی
گو میسر تھیں بہت، اپنی طبیعت نہ ملی
مجھ سے تو خیر بچھڑ جانا ہی بہتر تھا ترا
بات نکلی ہے کہ تجھ کو بھی محبت نہ ملی

73
خود وقت بھی عذاب میں ہم بھی عذاب میں
سہتا ہے ہم کو شوق سے، ہم اس کو سہتے ہیں
کوئی خلا ہے ذہن میں اک بے دلی سی ہے
چل زیبؔ آج خود سے کوئی بات کہتے ہیں

0
72
اس چشمِ غم کے آنسو بہانے کا کیا کریں
یارو بتاؤ ہم یہ زمانے کا کیا کریں
یہ روز سوچتے ہیں تمہیں بھوک جائیں ہم
یہ روز سوچتے ہیں بھلانے کا کیا کریں
مجبوریوں سے ٹال دیا عین وقت پر
حیران ہیں کہ تیرے بہانے کا کیا کریں

0
76
اپنے گماں کے مبتلا سوزِ ضرر رساں کے جونؔ
زیبؔ کو یاد ہیں ابھی یعنی کہ رفتگاں کے جونؔ
اپنے یقیں کے شرم سار اپنی ہی ذات سے فرار
ناقدِ جبر و اختیار سختئِ امتحاں کے جونؔ
زخمِ نفس میں سربکف زہرِ زماں میں بے اماں
عکسِ صفات سے گراں سایۂ و بے نشاں کے جونؔ

0
85
یہ دو جہاں! یقین و گماں! ان کے درمیاں
بس اک مساوی جنگ چھڑی ہوئی ہے جہاں
ہاں اک جہانِ رنگِ پراسرار بھی ہے یہاں
جانے یہ کون شخص ہے جانے ہے کیا گماں
میں سوچتا ہوں کون ہے یہ میرے آس پاس
جو جاتا بھی نہیں ہے نہ آتا ہے مجھ کو راس

0
154
میں کسی طور رہوں خوش یہ تو ممکِن ہی نہیں
ہے ترے ساتھ بھی تکلیف ترے بِن ہی نہیں
اپنے بخشے ہوۓ زخموں کی ندامت میں دوست
کوئی کفارہ بھی کر، ان کو فقط گِن ہی نہیں
بات کا رخ جو نہیں جاتا لڑائی کی طرف
وہ کوئی شب ہی نہیں اور وہ کوئی دِن ہی نہیں

0
62
زندہ تھے ہم رمِ آہو کی دکاں ہونے تک
بوڑھے ہوتے گئے ہم لوگ جواں ہونے تک
تم نے جبرا ہمیں چاہا، کوئی چاہت نہیں تھی
کھیل اچھا تھا مگر راز عیاں ہونے تک
ایک خوش رنگ مکاں میرے تصور میں تھا پر
وہ زمیں بیٹھ گئی میرا مکاں ہونے تک

0
2
104
آرزو جو کرے تو ڈٹ جاۓ
چاہے پھر عشق میں نپٹ جاۓ
بے خودی میں سخن کا عقل و شعور
کیا پتا آگہی میں گھٹ جاۓ
آ تو جاتا ہوں تیرے در کے قریب
عین ممکن ہے دل پلٹ جاۓ

0
89
شعر میں ہم سے امیر اور نئی سوچ لیے
پس غریبی میں جیے، ظلمتوں میں پِس رہے ہیں
آؤ رودادِ شب و روز سناتے ہیں تمہیں
کروٹیں لے لے کے بس اپنا بدن گِھس رہے ہیں

0
66
یہ کیسے کیسے درد خدا نے بناۓ ہیں
قیمت گھٹا کے اپنی ترے پاس آۓ ہیں
ہم اہلِ آرزو نے بڑے جوش و جذبے سے
بس گزرے ہوۓ وقت کے لاشے اٹھاۓ ہیں
جب کوئی چھل کرے تو ہر بار کی طرح
بس ٹکٹکی سی باندھ کے ہم سر کھجاۓ ہیں

0
70
چشمِ جہانِ سنگ و خرافات سوچ مت
چل میرے ساتھ بعد کے حالات سوچ مت
یہ رقصِ صحنِ شب ہے دمِ ورزشِ جنوں
ہو جا فنا جنوں میں کوئی بات سوچ مت
واللہ، گمان و سوز و فریب و فسوں غضب
مخلوقِ دشتِ شوق کے خطرات سوچ مت

0
101
ہجوم ہے مرے اطراف میں بہت لیکن
تُو تو نہیں ہے، ترے جیسی ان میں بات کہاں

0
70
مشکل میں ہیں ہماری صدائیں بٹوریے
ہم کو سہارا دے کے دعائیں بٹوریے

0
47
اس جگہ سے جہاں سے رستہ پلٹ جاتا ہے
چوٹ کھا کے دلِ وابستہ پلٹ جاتا ہے

0
71
ترے حصے میں دسترس آ گئی
مرے حصے میں مے کدہ آیا ہے

0
153
یہ تکبر نہیں، ہے بات یوں دراصل
زیبؔ کو زیب نہیں دیتا ترا وصل

0
59
مرا فتور سہی یہ خلل سہی،، لیکن!
ترے بغیر جیوں گا میں زندگی،، لیکن!
جمال و حسنِ جہاں سے بہل گیا ہوں میں
نہیں ہے خانۂِ دل میں تری کمی،، لیکن!
غضب کہ کیسی اداکاری سے میں ملتا ہوں
یہ دوست کہتے ہیں چہرے پہ ہے ہنسی،، لیکن!

0
73
سوز میں ڈھل رہی ہو؟ ڈھلتی رہو
ہجر میں پل رہی ہو؟ پلتی رہو
خوش ہوں تم بن بھی میں، یہ دیکھ کے تم
جانِ من جل رہی ہو؟ جلتی رہو
مجھے کھو کر تم اپنے ہاتھوں کو
بے سبب مل رہی ہو؟ ملتی رہو

0
89
کسی سے پیار ہے؟ قسم سے ہے
جینا دشوار ہے؟ قسم سے ہے
غلبۂِ ہجر اور اداسی میں
آس مسمار ہے؟ قسم سے ہے
بہت اکتاۓ ہوۓ پھرتے ہو
کوئی آزار ہے؟ قسم سے ہے

0
110
تا عمر کون خود کو یوں برباد رکھے گا
دل کو وہ ہم قفس مگر آزاد رکھے گا
جو جی رہے تو کس نے ہماری خبر لی ہے
مر جائیں گے تو کون ہمیں یاد رکھے گا
دو چار دن کی بات ہے وہ وقت آۓ گا
ناشاد دل کو جب وہ بہت شاد رکھے گا

61
آزار سے گِھرا ہوا بے زار، ٹھیک ہے
بیمار ہو کے بھی ترا بیمار ٹھیک ہے
کوئی رہے گا نازِ محبت میں زیرِ رم
کوئی فریبِ خوگرِ پندار ٹھیک ہے
ایسی شکست و ریخت کا گھاؤ ملا کہ اب
مسمار ہے امید سو مسمار ٹھیک ہے

0
69
جنابِ دل کا رہے پارسائی سے رشتہ؟
ہے دلفریب یہ حیریت فزائی سے رشتہ!
لباسِ ہجر سے یوں آشنائی ہے میری
جو چوڑیوں کا ہے تیری کلائی سے رشتہ
بھلے ہی حسن کا ہے کام موہ لینا مگر
تباہ کیوں نہ کرے خود نمائی سے رشتہ

0
97
مجھے شوقِ لذتِ کرب ہے مجھے لطفِ سوزِ جگر سہی
جسے سہنا ایک عذاب ہو وہی کوئی حرفِ ضرر سہی
نہیں تابِ حسن و ادا جسے اسی شخص پر ہوں تجلیاں
جو تباہ کر دے نظر کو ہی وہ نگاہِ برق و شرر سہی
مری خلوتیں مری ہجرتیں عجب ایک معرکہ فن ہوئیں
تری رَزم گاہِ خیال میں مری زیست ایک ہنر سہی

0
215
الجھی ہے سوچ ذہن تضادات کا شکار
یوں ہے کہ آدمی ہوا حالات کا شکار
حالت یہ ہے کہ ہر کوئی شوریدہ سر ہوا
اک طعنہ زن تو دوجا خرافات کا شکار
ان سے تو پوچھو ہجر تھکاتا ہے کس طرح
کمرے میں رہ کے جو ہیں مسافات کا شکار

0
133
ہر غم کے اضطراب سے آزاد کر لیا
اپنے وجود کو میں نے فولاد کر لیا
پہلے تو اپنے آپ پہ خود کو ہی فتح دی
پھر خود کو اپنے آپ پہ جلّاد کر لیا
دن رات کی روش میں، میں نے تیری یاد کو
اتنا کما لیا ہے کہ صیاد کر لیا

0
104
ہو دسترس میں اگر میری تو ستاؤ بھی
فقط ہنسانا ہی کافی نہیں رلاؤ بھی
میں ایک عمر رہا ہوں ریاضتِ غم میں
لطیف ہیں مجھے دکھ، دلربا ہیں گھاؤ بھی
یونہی یہ تن کے کھڑے رہنا کیسی عادت ہے
یہ ہاتھ جو ہیں، ملانے کو ہیں، ملاؤ بھی

0
74
آدمی، جو ہاؤ ہو میں ڈھل گیا
دل بنا، پھر آرزو میں ڈھل گیا
معرکہ تھا وصل کا کیسا عجیب
سرد موسم گرم لُو میں ڈھل گیا
رشتہ جو عجلت پسندی میں بنا
منظرِ آبِ لہو میں ڈھل گیا

0
92
اندوہِ انتظار ہے منظر ہلاک ہے
ہاۓ جو اعتبار ہے منظر ہلاک ہے
تلخی و اضطرار ہے منظر ہلاک ہے
سر پر جنوں سوار ہے منظر ہلاک ہے
اک گوشۂِ حصار ہے منظر ہلاک ہے
اس دل کے ہاتھوں ہار ہے منظر ہلاک ہے

0
52
تیرے بغیر جینا کچھ آسان تو نہیں
میں کیا بتاؤں خیر تُو انجان تو نہیں

0
105
سوتے ہیں دن میں شب کو ہیں بیدار آجکل
بے زار بیٹھے ہیں پسِ دیوار آجکل
گھمبیر ہے حقیقتِ بازار آجکل
چھل ہے وفا، بناوٹی ہیں یار آجکل
الٹی دشا میں بہتا ہے سنسار آجکل
ہر شخص سادھو، ہر کوئی فنکار آجکل

0
100
دکھ میں بھی دل تھا اس رخِ تابش کے ساتھ ساتھ
آتا رہا مزہ مجھے رنجش کی ساتھ ساتھ
اس شخص سے بڑا کوئی دشمن نہیں کہ جو
یاد آتا ہے بھلانے کی کوشش کے ساتھ ساتھ
راضی کیا عدو، مجھے دشنام بخش کے
عزت اچھی بنائی نمائش کے ساتھ ساتھ

0
51
فرقت کی مشکلات ذرا سوچ تو سہی
حالات و واقعات ذرا سوچ تو سہی
یوں بے سبب بچھڑنا بھی تو کوئی حل نہیں
آثارِ ممکنات ذرا سوچ تو سہی

0
96
کسے خبر ہے بھلا، کیا پتا رہے نہ رہے
ابھی وہ میرا ہے کل کو مرا رہے نہ رہے
نبھاہ سے تو سروکار ہی نہیں ہے مجھے
ترا بھی کیا پتا تُو باوفا رہے نہ رہے
ہے سچ کہ مائلِ حسن و ادا ہوا تھا مگر
حسین اور بھی ہیں، تیرا خلا رہے نہ رہے

0
57
بلاۓ غم سے لڑے کھاۓ ہیں بہت جھٹکے
تھی زندگی مرے آگے، کھڑا رہا ڈٹ کے
بتاہیں کیا تمہیں ایام کی روش کیا ہے
نگہ لگی رہے ہے چھت کو اور سانس اٹکے
جو تجھ سے نکلے ہی تھے، لے اڑی سہیلی تری
یوں آسماں سے گرے اور کھجور میں اٹکے

0
102
گر مجھے تم بھلا نہ پاۓ تو؟
اپنے دل کو لگا نہ پاۓ تو؟
اتنا آسان کچھ نہیں ہوتا
ہجر کا بوجھ اٹھا نہ پاۓ تو؟
اک ملاقات ٹھیک ہے لیکن
تم دلاسے دلا نہ پاۓ تو؟

0
87
کچھ بھی معلوم نہیں، دشتِ جنوں میں اے زیبؔ
ہم کہاں تک گئے تھے اور کہاں تک جانا تھا

0
65
مرا مجھی پہ کبھی اختیار ہو نہ سکا
کہ آرزو سے تری میں فرار ہو نہ سکا

0
56
ہم ایسے خاکسار کی اور داستاں ہے کیا
ملتے ہیں آرزو لیے احبابِ ذوق سے

0
65
حسن بدذات ہے پر عشق تو بدذات نہیں
آپ جو سمجھیں، چلو خیر کوئی بات نہیں
بھول جائیں تمہیں یہ ٹھیک کہا ہے تم نے
ہاں مگر اتنے گرے ہوۓ بھی جذبات نہیں
عشق شطرنج ہے تو شوق ہے مہرہ اس کا
اور مہرہ بھی یہ ایسا کہ جسے مات نہیں

0
47
ہم ایسے لوگ عبادت سمجھ کے وحشت کو
دبے ہوۓ ہیں کسی آرزو کے بوجھ تلے

0
78
کسی زبان سے نامِ عدو بیاں ہو گیا
سٹک کے الٹا کہے دیتے ہیں کہ ہاں ہو گیا
کوۓ بتاں میں بہا آیا ہوں وجودِ ذات
تھی رائیگانی محبت، میں رائیگاں ہو گیا
یہ تیرے دل کے نکالے ہوؤں کا کیا گھر بار
اسیرِ غم ہیں، جدھر بیٹھے وہ مکاں ہو گیا

0
97
وہ داستانِ شبِ وصل کیا سنائیں تمہیں
کہ اے رقیب بجز رائگانی کچھ بھی نہیں
اذیتیں، یہ اداسی، یہ بے دلی، یہ فراق
ہیں خلقِ دشتِ جنوں اور فانی کچھ بھی نہیں
عجب ہے آس کا لافانی دور جس میں زیبؔ
زمینی کچھ بھی نہیں آسمانی کچھ بھی نہیں

0
70
مجھ سے اس کا تپاک سے ملنا
خاک کا ہے یوں خاک سے ملنا

0
105
نگاہِ برق میں زلفِ سیہ میں الجھے رہے
تمام عمر کسی بے وفا میں الجھے رہے
انہیں مسرتِ ایذا تھی ہم تھے ڈھیٹ بہت
وہ کارِ جبر میں ہم جبرِ وا میں الجھے رہے

0
76
ہر شخص غم زدہ ہے کہ حالات سمجھے کون
شور و شغب ہے اتنا مری بات سمجھے کون
ہے یہ صدی جدید صدی، بے وفاؤں کی
اے صاحبانِ شوق! یہ جذبات سمجھے کون؟

0
97
ترے خیال سے نکلوں تو کس طرح نکلوں
مرے گماں کے خلا میں ہے صرف عکس ترا

0
79
کسی سے پیار ہے، قسم سے ہے
جینا دشوار ہے، قسم سے ہے
غلبۂِ ہجر اور اداسی میں
آس مسمار ہے، قسم سے ہے

0
57
چہرہ ہے خوب، زلفِ گرہ گیر اخیر ہے
وہ تیرے ساتھ لی ہوئی تصویر اخیر ہے
گھائل ہوۓ ہیں کتنے ہنر مندِ تیغ بھی
تیری بھووں کی خیر، یہ شمشیر اخیر ہے
بیمارِ غم پہ ہے یہ عنایت بہت مفید
یعنی کہ عارض و لبِ اِکسیر اخیر ہے

0
184
موجبِ خواہشِ دل، عہد گوارا کر کے
کتنے خوش رہتے ہیں ہم ایسا خسارا کر کے
گو جہنم ہے ترا وصل مگر پھر بھی ہم
کس طرح جیتے رہیں تجھ سے کنارا کے

0
65
لمحہ بہ لمحہ سوچ و خیالات میں کوئی
یوں آ رہا ہے خاطر و جذبات میں کوئی
میں تو پڑا تھا حالتِ سوز و گمان میں
میرے ہی بیچ آ گیا ہے کوئی دھیان میں
اک زخم بھر رہا ہے پر اک آس مٹ گئی
سو ایک تلخی بڑھ رہی ہے ایک گھٹ گئی

0
43
کیوں عَبَث دل کو پائمال کریں
تیرے جیسوں کا کیا ملال کریں

0
96
رہے گا درد جُوں کا تُوں کب تک
چشمِ تر سے بہے گا خُوں کب تک
چشمِ منظر ہو پُرفُسوں کب تک
کربِ بے ماجرا سہوں کب تک
دشت میں ہوں اگر تو ہوں کب تک
رہے گا آخرش جنوں کب تک

0
80
ذہن میں کچھ ایسے خیالات کا دھواں ہے کہ کچھ عجب منظر ہے جو یقین اور گمان کے بیچ ایک ربط قائم کیے ہوۓ ہیں جانے جھکاؤ کس طرف ہو۔ جیسے یقین اور گمان سے مساوی جنگ ہو۔شاید کسی پر لطف حقیقت کا عیش اٹھاتے ہوۓ یا کسی گمان کے گمان میں تباہ حال کچھ پتا نہیں۔جیسے دہر میں ایک وسطی لے
ہو جو یقین و گمان کو دائیں بائیں ٹکاۓ ہوۓ ہے۔ اور شاید یہی ایک دشتِ دوام ہے اور پھر رہروۓ شوق اسی لے پر برہنہ پا شکستہ حال بھاگتے ہیں اور کچھ گمان کی دسترس میں آ جاتے ہیں، وجود تو شاید یہیں ہو مگر ذہن کسی اور دنیا میں آباد ہو جاتا ہے۔ اور کچھ یقین یعنی حقیقت کے ہاتھوں ہلاک ہو جاتے۔ ہاں مگر حقیقت صرف وجود کو شکست دے کر ناتواں بنا دیتی ہے اور سحر انگیز گمان روح کو تباہ کر دیتا ہے ۔شاید یہی زندگی ہے۔

0
49
اٹھتے ہیں تیرے لیے جو، اُنہی جذبات پہ تُف
کہ ہر آن ایسی روش ایسے خیالات پہ تُف
تیرے الفاظ کی تلخی نے کیا کتنا نڈھال
تیری گفتار پہ لعنت تری ہر بات پہ تُف
دلِ بیزرا سے ایک آہ نکلتی ہے مرے
جو نمو پائیں کبھی، وصل کے اثبات پہ تُف

0
310
کوئی امکان ہیں نہ آشا ہے
زندگی کیا ہے، اک تماشا ہے
کیسی تیرہ شبی کا دور ہے یاں
بس کہ مایوسی اور نراشا ہے
میں جو سر پر اٹھاۓ پھرتا ہوں
میرے گزرے دنوں کا لاشا ہے

0
67
ہم بھی بقولِ جونؔ یہی مانتے ہیں زیبؔ
“شاعر ہیں آپ یعنی کہ سستے لطیفہ گو”

0
77
ترے عارض و لب، مری خواہشِ بد
کہ ہو بوسۂِ شب ، نہ رہے کوئی حد

0
81
جب ترے حسن پر خیال کیا
عقل نے میری انتقال کیا
ایک دن تجھ کو چھوڑ کر ہم نے
اپنی دانست میں کمال کیا
موجبِ شوق یہ مرے دل نے
خلوتوں میں بہت وبال کیا

0
71
حاصلِ زیست رہی صرف گماں کی صورت
یعنی وحشت رہی اور آہ و فغاں کی صورت
کوئی بھی رنگ نہ بھایا تھا ہمارا اس کو
ہم تھے اس کے لیے ایک ابرِ گراں کی صورت
یہ مری خانہ خرابی! کہ ہے عرضِ قربت
اور جواب اس کا طلب کرتے ہیں ہاں کی صورت

0
68
ہے موسمِ فراق، علامات ہیں خراب
کیا وجہ بے دلی ہو، وجوہات ہیں خراب
لمحات ہیں خراب، یہ دن رات ہیں خراب
بس اتنا جان لیجیے کہ حالات ہیں خراب
وہ دور ہے کہ لفظِ وفا بھی ہے زیرِ رم
لیلیٰ و قیس ہیں کہ خیالات ہیں خراب

0
78
آپ اپنے پہ کچھ ستم تھے کہ تھے
کسی کی دسترس میں ہم تھے کہ تھے
جس میں ہم ایک عمر الجھے رہے
تیری زلفِ رسا کے خم تھے کہ تھے
لفظِ اخلاص یعنی، لایعنی
اسی عیّار کے کرم تھے کہ تھے

0
71
سب معیار اپنے، آپ نے کھو لیے، کیا ہے یہ؟
مرے ہوتے ہوئے عدو کے ہو لیے، کیا ہے یہ؟
وہ اک رہروۓ دشتِ شوق و جنوں خوش ہے
یہ اداکاری نہیں تو پھر بولیے کیا ہے یہ؟
اک ہم ہیں جو شبِ فرقت تھے بیزار بہت
اک آپ ہیں جو فرقت میں سو لیے، کیا ہے یہ؟

0
66
خود کو شب بھر جگاتے ہو کہ نہیں
عشق میں پھڑپھڑاتے ہو کہ نہیں
چڑ کے کہنے لگے سرِ محفل
ابے او اٹھ کے جاتے ہو کہ نہیں
دے کے لفظوں کی مار کہتے ہیں
عشق سے باز آتے ہو کہ نہیں

0
72
عالمِ حزن پر تپاک سہی
تو نہیں تو ترا فراق سہی
پسِ منظر ہے اک دریچۂِ شوق
روح اور دل جہاں ہلاک سہی
رنگِ بے ماجرائی میں ڈھل کے
اپنی ہی ذات کا مذاق سہی

0
62
اشک غم رفع ہیں چشمِ نم سے
زندگی کھل اٹھی تیرے دم سے
میں تھا ویرانئِ رنگِ بد میں
مہکی خلوت تری زلفِ خم سے
گفتگو کوئی ہماری دیکھے
میں فقط تم سے ہوں تم ہو ہم سے

0
45
وہ جو تھا رشتۂِ دل، ہاں وہی حرام بنا
خیالِ یار بل آخر خیالِ خام بنا
وہ بے وفا تھا مگر اس کو چھوڑتے ہوئے
بس ایک غم سا رہا جو غمِ دوام بنا

0
94
اپنے ہی اعتبار میں نہیں ہے
دل کسی اختیار میں نہیں ہے

0
59
نہ سنی ایک بھی طنزاً مجھے وہ کہنے لگے
کیا یہ تمہید پہ تمہید کیے جاتے ہو

0
72
کوۓ جاناں میں قتلِ عام ہے کیا
سرِ فہرست میرا نام ہے کیا
دہر میں شورشِ خرام ہے کیا
اور سب کچھ خیالِ خام ہے کیا
غلبۂِ آرزوۓ خوار میں آج
یہ بہت سہم ناک شام ہے کیا

0
69
مسکرانے کو پاس کچھ بھی نہیں
بات یہ ہے کہ راس کچھ بھی نہیں
زندہ ہوں ایک آس پر لیکن
آس بھی کیا ہے، آس کچھ بھی نہیں
اس گلی سے گزر ہے روز، مگر
پاس اب التماس کچھ بھی نہیں

0
106
اور تفصیل غم بھی ہو سو مجھے
تم سے ملوایا ہے مقدر نے

0
78
جو ترے میرے درمیاں تھی کبھی
وہ محبت نہیں تھی وحشت تھی

0
74
رنج و الم ہے جو مرے دل کو عطا آپ کی ہے
دیکھیے میری ہے خطا یا کہ خطا آپ کی ہے
جاں پہ بنے بادہ کشوں کی وہ مٹک کر جو چلیں
کبک دری میں کہاں جو مست ادا آپ کی ہے

0
58
صدمۂِ جنبشِ لب سے گو مر گیا
میں مگر تیری فرقت تو سر کر گیا

0
72
ہے ہجر میں ہجرِ شوقِ قربت
عجیب دکھ ہے یہ دکھ کے اندر

0
64
دل پہ میرے کوئی خراش سی ہے
زندگی ایک زندہ لاش سی ہے
کچھ عجب شعر کہنے لگ گیا ہوں
اک تلاش ایک بے تلاش سی ہے
پاؤں دشتِ جنوں میں جلتے ہیں گو
یہی پر اپنی بود و باش سی ہے

0
61
میں پہلو میں تیرے دیکھوں کیسے رقیب کو۔۔
کہ تجھ کج ادا سے تری فرقت اچھی ہے۔۔

0
85
یں خوگرِ فرقت ہوں دل میں کوئی بھی خواہش نہیں
تیرے چلے جانے کا دکھ کیا آنے کی امید کیا

0
57