اندوہِ انتظار ہے منظر ہلاک ہے
ہاۓ جو اعتبار ہے منظر ہلاک ہے
تلخی و اضطرار ہے منظر ہلاک ہے
سر پر جنوں سوار ہے منظر ہلاک ہے
اک گوشۂِ حصار ہے منظر ہلاک ہے
اس دل کے ہاتھوں ہار ہے منظر ہلاک ہے
اک تیغ آب دار ہے منظر ہلاک ہے
اک شخص تار تار ہے منظر ہلاک ہے
اللہ رے اداۓ تغافل کا سلسلہ
اور پھر یہ بے شمار ہے منظر ہلاک ہے
یہ جبر، یہ فریب، عتاب و جفا، یہ طیش
وہ کتنا رنگ دار ہے منظر ہلاک ہے
رہ رہ کے شورِ گریۂ و نالہ ہے ہجر میں
رہ رہ کے اک پکار ہے منظر ہلاک ہے
لپٹی ہے مجھ سے یہ کسی معشوق کی طرح
وحشت، کہ مست نار ہے منظر ہلاک ہے
تھمتیں نہیں جو پھوٹ بہیں بات بات پر
آنکھیں کہ آبشار ہے منظر ہلاک ہے
یہ دل کچھ اور چاہتا ہے یہ ذہن اور کچھ
یوں وقت خار دار ہے منظر ہلاک ہے
خود کو میں نے چھپا لیا خود میں کہ ہر طرف
فتنے ہیں انتشار ہے منظر ہلاک ہے
یہ بے دلی، یہ تیرہ شبی، یاد کا غبار
اک شخص زیرِ بار ہے منظر ہلاک ہے
تاحال بھی سدھر نہ سکی حالتِ زبوں
ناچاری برقرار ہے منظر ہلاک ہے
گزرے گی عیشِ سوزِ دروں میں یہ زندگی
غم اپنا پاۓ دار ہے منظر ہلاک ہے
روزِ جزا حسابِ تمنا کریں گے زیبؔ
وہ میرا دیندار ہے منظر ہلاک ہے

0
44