آسرا جس نے دیا خود کو وہاں باندھ لیا |
دل میں گویا کوئی مفلوج گماں باندھ لیا |
کیا عجب کوچۂ و دیوار کی الفت ہے مجھے |
دل کہاں رکھا مگر ربط کہاں باندھ لیا |
کیسی دھتکار سے روندے گئے عشاق و دل |
یعنی تاریخ نے پہلو سے زیاں باندھ لیا |
پھر وہی یاد، وہی نقش، وہی وحشتِ شب |
ہم سفر پر تو چلے ساتھ مکاں باندھ لیا |
ضبط کیا؟ جبکہ تمنا کا کوئی توڑ نہیں |
بحث کیا؟ جب اسے موضوعِ بیاں باندھ لیا! |
معلومات