دلِ بے کساں کو یوں تار تار کیا گیا |
کہ بھلے سے آپ کا اعتبار کیا گیا |
تری یاد سے جسے ہمکنار کیا گیا |
وہ مرا ہی دل تھا! ذلیل و خوار کیا گیا |
یہ حماقتیں ہی تو تھیں کہ ملبۂِ آرزو |
ترے آستانے پہ اُستوار کیا گیا |
جبھی بھول کر کبھی گھر بنانے کی چاہ کی |
ہے عجب کہ ریت پہ انحصار کیا گیا |
نہ سراب سے کبھی باہر آۓ نہ ہوش تھا |
دمِ بے خودی میں ہی دل فگار کیا گیا |
ہمیں علم تھا کہ سراب ہے تری دسترس! |
ترے غم میں عقل کو شرمسار کیا گیا |
یہ بہت غلط ہوا، تیرے وصل میں زیب کو |
دل و جان سے نظرِ غبار کیا گیا |
معلومات