| اتنا سا اعتبار کر لینا |
| بس ذرا انتظار کر لینا |
| اور تو کہنے کو نہیں کچھ بھی |
| راستہ اختیار کر لینا |
| شام ہے اور شام میں خود کو |
| بے سبب اشکبار کر لینا! |
| جانیے آرزو کا ظلم کہ پھر |
| آرزو بار بار کر لینا |
| دخل اندازی تو نہیں پھر بھی |
| کہیں مجھ کو شمار کر لینا |
| اک تصور میں سوچتے رہنا |
| بے طرح خود کو خوار کر لینا! |
| زیبؔ دل پھر سے بجھتا جاتا ہے |
| کوئی حل اب کی بار کر لینا! |
معلومات