ہر غم کے اضطراب سے آزاد کر لیا
اپنے وجود کو میں نے فولاد کر لیا
پہلے تو اپنے آپ پہ خود کو ہی فتح دی
پھر خود کو اپنے آپ پہ جلّاد کر لیا
دن رات کی روش میں، میں نے تیری یاد کو
اتنا کما لیا ہے کہ صیاد کر لیا
پہلے جدا کیا ہے، پھر اپنے خیال میں
اپنے طریقے سے تجھے ایجاد کر لیا
اک تیرے غم میں ہوۓ غمِ روزگار بھی
جو جمع پونجی تھی اسے برباد کر لیا

0
106