| ہر غم کے اضطراب سے آزاد کر لیا |
| اپنے وجود کو میں نے فولاد کر لیا |
| پہلے تو اپنے آپ پہ خود کو ہی فتح دی |
| پھر خود کو اپنے آپ پہ جلّاد کر لیا |
| دن رات کی روش میں، میں نے تیری یاد کو |
| اتنا کما لیا ہے کہ صیاد کر لیا |
| پہلے جدا کیا ہے، پھر اپنے خیال میں |
| اپنے طریقے سے تجھے ایجاد کر لیا |
| اک تیرے غم میں ہوۓ غمِ روزگار بھی |
| جو جمع پونجی تھی اسے برباد کر لیا |
معلومات