ہر طرح سے مجھے ہر لمحے میں حیران کیا
ساتھ کچھ روز رہا اور پریشان کیا
شب کا رونا ہے مصیبت جسے آسان کیا
مبتلا ہوۓ عبث سانس کو ہلکان کیا
کھایا ہے شوق و تمنا سے تمانچا ایسا
عقل سے جنگ ہوئی زیست نے بے جان کیا
خود بہ خود طرزِ ہلاکت میں گرفتہ ہیں یوں
حجرے میں یاد رکھی صحن کو شمشان کیا
سب دریچوں میں خزاں کوۓ تمنا میں گرد
دشت کو بخشی نمو ذات کو سنسان کیا
رفتہ رفتہ سبھی کو خواہشِ دولت نے زیبؔ
یوں تو انسان رکھا، کام سے شیطان کیا

0
8