لکیرِ درد سے کوئی نشان کھینچتے ہیں
دکانِ گریہ سے عُشّاق دھیان کھینچتے ہیں
کبھی جو دشتِ مروت میں ہوۓ محوِ سفر
ہمارے لفظ ہماری زبان کھینچتے ہیں
وفورِ گردِ ملال اور میرا حالِ زبوں
قیامِ دشتِ جنوں کا بیان کھینچتے ہیں
خمارِ شمع کی زَد میں نئے طریقوں سے
پتنگے جلتے ہوۓ داستان کھینچتے ہیں
ہم ایسے عقل کے دوشی برَم کی دنیا میں
ترے یقین کا پختہ مکان کھینچتے ہیں

0
57