ہر نفس قصۂِ آلام کو فرحت نہ ملی
یعنی تاریخ کو تاریخ سے فرصت نہ ملی
اور آزادئِ فرقت، کوئی حسرت ہی رہی
گو میسر تھیں بہت، اپنی طبیعت نہ ملی
مجھ سے تو خیر بچھڑ جانا ہی بہتر تھا ترا
بات نکلی ہے کہ تجھ کو بھی محبت نہ ملی
ہم بہت دیر مروت کی ذلالت میں جیے
عقل جھنجھوڑتی تھی، شوق کو فرصت نہ ملی
تیری گفتار پہ بھی غور کیا پر بے سود
تیرے انکار کی کوئی بھی وضاحت نہ ملی
کر لیا عہد وفا، عہدِ جنوں، عہدِ گماں
بجز اس کے تجھے کچھ اور شرارت نہ ملی؟
بھول کر آج ہمیں یاد ہماری آئی
دیکھا جو آئینہ تو شکل و شباہت نہ ملی
اک صدا آئی خرد سے کہ جنوں، وحشت ہے
کبھی سن لیتے مگر ویسی سماعت نہ ملی
سکتے میں ہیں یہ سبھی حالتیں جسم و جاں کی
ذہنی تکلیف میں اعصاب کو حرکت نہ ملی
سر بہ سر خاک بسر ہوئے تری آڑ میں ہم
گرد سے آہ نکلتی ہے کہ چاہت نہ ملی
زندگی کٹنے کی تھی کٹتی رہی لیکن زیبؔ
حالِ بے تاب کو کچھ وجہ حقیت نہ ملی

63