اوڑھ کر ہجر میں! غبار ہوا
سوگواری تھی، سوگوار ہوا
مجھ پہ پہلے تو تیرا وار ہوا
پھر میں حالات کا شکار ہوا
اک ہی رودادِ دل ہے جانِ من
بے طرح سے ذلیل و خوار ہوا
غالباً آج ہے وہ پیشِ لحاظ
مجھ پہ احسان یہ ادھار ہوا
عادتوں میں ہے ایک کارِ عذاب
بارہا دل پہ اعتبار ہوا
نوکری کی تھکن میں دن گزرا
شام میں تیرا انتظار ہوا
لطفِ قربت تو ٹھیک لیکن دل
سوچیے گر تو داغدار ہوا
جیسے انگارے بجھتے ہیں سو میں
وقت کے ساتھ بردبار ہوا
کیا ستم ہے کہ زیبؔ میرے لیے
ایک دروازہ تھا، دیوار ہوا

36