ہم نے مانگی تھی مہلت ہجر کے زمانے سے |
اور رینگتے آۓ دل کے کارخانے سے |
مطمئن نہیں ہیں ہم، کارِ باز آنے سے |
یعنی زندہ رہتے ہیں خود کو کاٹ کھانے سے |
ہم ہیں کیسے شوریدہ، تُند خوۓ گرویدہ |
جان پیاری ہے ہم کو آپ کے بہانے سے |
نقشۂِ کہن سازی، جیت جاتا ہے بازی |
رہیے حال میں گرچہ، جیتے ہیں فسانے سے |
لاکھ اہلِ کوشاں ہم جو بھی کیجیے بے سود |
یاد تازہ ہوتی ہے بھولنے بھلانے سے |
یہ ستم شعاری کیا یہ گزر گزاری کیا |
جان جاتی ہے یارو جان کو بچانے سے |
کوششیں نہیں ہوئیں عادتیں نہیں بدلیں |
سانس چلتی ہے اب بھی آرزو کے خانے سے |
سب تقاضے پورے ہیں ہر ستم بھی شامل ہے |
وقت ڈھل گیا آخر روٹھنے منانے سے |
ایک لہر سی دل میں دوڑتی چلی آۓ |
آج جب گزرتا ہوں اپنے اُس ٹھکانے سے |
دھوپ میرے آنگن کی مژدۂِ بہارِ دل |
آج جھلسی ہوئی ہے گھر کو چھوڑ جانے سے |
شہرِ اجنبی ہے یہ سازِ بے کسی ہے یہ |
زیب درگزر کیجے آپ اس زمانے سے |
معلومات