| ایک عجب خرابئِ سلسلۂِ گمان میں |
| شورِ ہوا زمین پر گرد ہے آسمان میں |
| وحشتِ دل کہ دم بہ دم، رہیے گزشتگان میں |
| اور یہ ملبۂِ وجود جلتا ہے خاکدان میں |
| راہِ نجات اک طرف سوزِ حیات اک طرف |
| وقت نے کھینچ دی لکیر، اور میں ہوں درمیان میں |
| ایک طویل چپ کے ساتھ دیکھیے شب کی تیرگی |
| نوبتِ لامکان میں عالمِ بے امان میں |
| لاکھ چھپاۓ کیا چھپی کیفیتِ درونِ ذات |
| درد بہے ہے آنکھ سے جھوٹ رہے زبان میں |
| نکلا تھا کاروانِ شوق منظرِ دھند میں مگر |
| جان کسی پرندے کی نکلی ہے بادبان میں |
| دشتِ غبارِ آس میں گم ہیں سبھی معاملے |
| ظلم یہ ہے میں بھی نہ تھا، میری ہی داستان میں |
معلومات