تباہ حال ہے حالت درونِ شہرِ عزیز |
کماں بہ دست سے رقصاں ہیں ظلمتوں کے سفیر |
بچھا ہے حدِ نظر اہلِ خوۓ جبر کا جال |
درندگی ہے فقط کھینچیے اگر تصویر |
غریب چپ ہے کہ تقدید کا لکھا ہے مگر |
بکا ہے خواہشِ دولت میں حکمراں کا ضمیر |
ہزار قتل غریبوں کی آپ بیتی ہے |
امیرِ شہر سے پوچھیں تو راج نیتی ہے |
لٹا ہے پھر ہوسِ نفس میں یہ سازِ جہاں |
نہ دور دور تلک مسلماں نہ اس کا نشاں |
کہیں اگر کبھی تو عذر خُو ہے نکتہ چیں |
اسے حیا ہے نہ اسلاف کی نہ فکرِ دیں |
یہ پاسبانِ وطن تو نہیں فقط جرنیل |
بدن پہ چپکی ہے ان کے خباثتوں کی میل |
شکوہِ شاہ میں ہیں نفس کے بچاری سب |
یہ بے ضمیر یہ امریکہ کے حواری سب |
شیوخ و شاہ بھی اور سرحدوں کے رکھوالے |
وطن کو گروی رکھے ہوۓ ہیں جواری سب |
کچھ ایسا تو نہیں تھا خوابِ اہلِ بانگِ درا |
کہ جیسے آج لٹا ہے وہ کاروانِ ہدیٰ |
خبر ملی ہے کہ ایوانوں میں ہے حشر بپا |
سبھی ہیں دست و گریباں بدل گئی ہے ہوا |
سوال اٹھاے جو زندان اس کی قسمت ہے |
یہاں تو سانس بھی جیسے کوئی غنیمت ہے |
یوں حلقہ زن ہوا اغیار سہمے ہوۓ ہیں لوگ |
ہمارا بخت ہمارے ہی حکمراں ہیں غنیم |
گھٹن زدہ ہیں گلی گھر دریچے اور بازار |
نہ کچھ امیدِ بہار اور نہ کوئی بادِ نسیم |
نہ روٹی کپڑا نہ محفوظ عزتیں کسی کی |
کدھر کو جائیے آخر سیہ ہیں سارے باب |
اک آہ سے دلِ بے بس کی یہ دعا ہے فقط |
کہ وضع میں اے خدا کوئی تو ہو ابنِ خطاب |
معلومات