خواہشیں دل میں دباۓ ہوۓ شمشان ہوں میں |
اے ستم گر ذرا تو سوچ کہ انسان ہوں میں |
آرزو مند رہا دہر کی وحشت میں بھی دل |
آپ اپنی روش و گھو سے پریشان ہوں میں |
آپ تھے میری تمناؤں میں رقصاں؟ یعنی |
مطمئن تھا کسی پیمان پہ! حیران ہوں میں! |
اچھا ہوتا کہ نہ دیتا کوئی مہلت کسی کو |
اس قدر سادہ دلی تھی کہ پشیمان ہوں میں |
ایک عرصے سے نہ سویا ہوں نہ بیداری ہے |
جانے کس گردشِ بے رنگ کے دوران ہوں میں |
یہ تقاضہ ہے ملامت کا، بھلا دوں تم کو |
کیا کرے عادتوں کا مارا کہ نادان ہوں میں |
کس سے ہو جاۓ شناسائی رہِ دشتِ فراق |
لوٹ آؤ کہ ابھی مائلِ پیمان ہوں میں |
پی لیے اشکِ گماں کر لی شبِ ہجر سے بات |
اور تو ویران ہیں منظر سبھی ویران ہوں میں! |
کھا لیا وحشتِ حالات نے رفتہ رفتہ |
اب کہ جو باقی ہوں تو رنج کا سامان ہوں میں |
معلومات