ضبط کے جتنے تقاضے تھے ادا کر لیے ہیں
کہ تجھے چھوڑ کے ہم اپنا بھلا کر لیے ہیں
غلطی ہوئی جو ملنے پہ رضا کر لیے ہیں
اور الزام میں سر، بندِ قبا کر لیے ہیں
اپنا ہر آن میں ہے بارِ مروت سے گریز
خواہشِ غیر کو سامانِ دشا کر لیے ہیں
تیری گویائی تو دیکھی مری دانائی بھی دیکھ
چپ سے ہر لمحۂِ وحشت کو جزا کر لیے ہیں
بے دلی ہے کہ شب و روز ترے وصل میں ہم
لیٹ کر سوچ رہے ہیں کہ خطا کر لیے ہیں!
قصۂِ ولولۂِ شوق میں ہر بار کی طرح
کہ پھر اک بار سہی! تیرا کہا کر لیے ہیں
گاہے گاہے ترے کوچے سے گزر ہوتا ہے
اور ہر بار ترا زخم ہرا کر لیے ہیں
ان کو بھیجا تھا کہ سمجھتے یہ خدا ہی کو خدا!
یہ زمیں والے تو پیسے کو خدا کر لیے ہیں
وہ بدلنے کا نہیں حد ہے کہ زیبؔ اپنا آپ
ایک امیدِ تغیر پہ فنا کر لیے ہیں

0
17