| قصۂِ دل کو ملامت سے شغف ہے کہ نہیں |
| ایسی تھُو تھُو کوئی تمثیلِ صدف ہے کہ نہیں |
| عہدو و پیماں تو بجا صورتِ عجلت میں مگر |
| دل کو یہ وہم، اسے نسبتِ صف ہے کہ نہیں |
| ایک بہکاوے میں آیا ہوا بیچارہ، میں! |
| سوچتا ہوں کہ کوئی میری طرف ہے کہ نہیں |
| جو تجسس نہ رہا، لفظ وفا بے معنی |
| آج ہمدرد مرا تیغ بکف ہے کہ نہیں |
| بارہا عقل نے تحقیقِ تمنا کی تھی |
| دیکھیے زیبؔ یہ دل خاک میں لف ہے کہ نہیں |
معلومات