گرنا ہے گر بلندی سے پھر یہ اڑان ہے سراب
تیرا خیال ہے زیاں تیرا گمان ہے سراب
میں نے کیا یہ کام اگر میں نہیں جانتا مگر
آن بہ آن ہے مکَر آن بہ آن ہے سراب
کھا کے فریب کیا کرے اپنے یقیں کا شرمسار
عہد و وفا کے شہر میں دل کی زبان ہے سراب
بات اگرچہ تلخ ہے کہتا ہوں میں وثوق سے
عقل و خرد کی آڑ میں سارا جہان ہے سراب
میں نے تو زیبؔ خود پہ ہی جبر کیا ستم کیا
جبکہ یہ علم تھا مجھے تیری امان ہے سراب

71