| گرنا ہے گر بلندی سے پھر یہ اڑان ہے سراب |
| تیرا خیال ہے زیاں تیرا گمان ہے سراب |
| میں نے کیا یہ کام اگر میں نہیں جانتا مگر |
| آن بہ آن ہے مکَر آن بہ آن ہے سراب |
| کھا کے فریب کیا کرے اپنے یقیں کا شرمسار |
| عہد و وفا کے شہر میں دل کی زبان ہے سراب |
| بات اگرچہ تلخ ہے کہتا ہوں میں وثوق سے |
| عقل و خرد کی آڑ میں سارا جہان ہے سراب |
| میں نے تو زیبؔ خود پہ ہی جبر کیا ستم کیا |
| جبکہ یہ علم تھا مجھے تیری امان ہے سراب |
معلومات