کتنا جدا جدا ہے ترا میرا سازِ خُو
تُو ہے نشاطِ زیست میں ہوں سوزِ آرزو
تجھ خوش ادا کو دیکھ کے حیرت سی ہوتی ہے
کس ظلم کے عوض ہمیں بخشا گیا ہے تُو
میں دشت دشت زہرِ نفس کھا کے آیا ہوں
کس کس دلِ سیاہ میں جانے سفر کیا
میں شخص شخص سے ملا ہر سمت ڈھونگ تھا
کس کس فریب سے بچا کیا کیا مکَر کیا
میں لمحہ لمحہ حالِ فسوں میں تھا مبتلا
کس کس شکیب سے کسی حالت کو سر کیا
میں خواب خواب ایک شناسائی میں رہا
کس کس رہِ سراب میں کیا کچھ دگر کیا
کتنا تھکا دیا ہے نظامِ حیات نے
قصہ سواۓ رستۂِ دشوار کچھ نہیں
میں تنگ ہو چکا ہوں شعورِ جنون سے
حیف اور ماجراۓ دلِ زار کچھ نہیں
پھر کیسے کوئی شخص مجھے کھینچے جاتا ہے
شب کا کوئی برَم ہے یہ یا صبح کا چراغ
کس حال میں ہے حالتِ منظر نہیں پتا
کس گرد کی لپیٹ میں ہیں یہ دل و دماغ
اک اجنبی سا فہم اک انجان آس ہے
خاموش بھی نہیں نہ کبھی کچھ کہا مجھے
میں تو وبال تھا مگر اس مہربان نے
حیریت سے سوچتا ہوں کہ کیسے سہا مجھے

57