کوئی تو تھا یہاں! تھا نا؟ تمہیں بھی یاد ہے کیا؟
وہ جو تھا کوۓ تمنا سو وہ آباد ہے کیا؟
مجھ کو معلوم تھا گویائی کے لمحے ہیں فریب
وہ فریب آس ہے اب اور بہت شاد ہے کیا؟
ڈھل چکی زورِ تمنا میں شبِ خلوت بھی
دیکھیے دن میں کہیں کچھ نئی ایجاد ہے کیا؟
جانے کس دشت کا بھٹکا ہوا میں! سوچتا ہوں
کہیں فریاد ہے کیا؟ اور کوئی برباد ہے کیا؟
غیر کی آس ہے اور تم سے محبت ہے مجھے
میں تو آزاد نہیں تم سے! دل آزاد ہے کیا؟

43