کسی شریر حسینہ کی زَد میں آیا ہوا |
میں ایک شخص، خوۓ مستَرد میں آیا ہوا |
دل ایک وحشی درندہ فدا تھا اس پہ بہت |
سو خار کھا کے یہ اب اپنی حد میں آیا ہوا |
یوں آرزوئیں ہیں میری کہ سانس سانس گھٹن |
یوں ہے کہ جیسے کوئی دستِ بد میں آیا ہوا |
چھڑی ہے بات بچھڑنے کی جب سے سو تب سے |
یوں اکھڑی سانس میں آدھا لحَد میں آیا ہوا |
فراق میں مری زندہ دلی کو دیکھ کے زیبؔ |
ستم شعار ہے کارِ حسد میں آیا ہوا |
معلومات