خوب سے خوب اضطراب اور عذاب ہی عذاب
چاہتا ہے دل انقلاب، درد ہو اور بے حساب
عمر گزر ہی جاۓ گی، کوئی تو ہوگا سدِ باب
آپ کا اعتبار تھا آپ بھی ہوۓ بے نقاب
دیکھ کے مجھ کو بزم میں جھٹ سے تکلفِ حجاب
مجھ پہ گراں گزرتا ہے ان کی سرشت میں شتاب
منزلِ وحشتِ جہان ہاۓ کہ اس کا کیا بیان
اس میں گمان ہی گمان اس میں سراب ہی سراب
حسن نے حسن کی سنی، حسن نے حسن کی کہی
عشق ہے صرف انتساب ،عشق ہے صرف ایک خواب
دل کا نہ پوچھیے کہ دل، شاخِ ملال کا پرند
صبح سے ہے اداس اداس صبح سے محوِ اضطراب
زیست کی خوش نمائی سے زیبؔ میں دھوکا کھا گیا
پھر اسی خوش نمائی نے چھین لیا مرا شباب

0
62