کسی گماں کسی فرقت کی پاسداری ہے
فصیلِ گرد میں وحشت کی کاشتکاری ہے
ترے فراق میں یہ کیسی خواب کاری ہے
ترا خیال کہ جاری تھا اور جاری ہے
تمام عمر کا مرنا تو سخت بھاری ہے
زہے نصیب اشارہ ہو، جانثاری ہے
اگرچہ پھیرنا منہ ایک ناگواری ہے
مگر کسے کہیں؟ دنیا ہے! دنیا داری ہے!
تمہارے بعد شب و روز یاد طاری
گلوں میں رنگ نہیں گھر میں سوگواری ہے
کیا ہے خوار تسلی سے زندگی نے مگر
ادا سے زندہ ہوں ہر چند بردباری ہے
بجز خلل نہیں ہے کچھ بھی خانۂِ دل میں
گماں سے بہتی ہوئی شب کی پائداری ہے
ابھی بھی قیس ہیں بادہ ہے حسن ہے اور ہجر
سو دہر میں ابھی بھی ایک وضعداری ہے
ہے جس کی عادتوں میں الفتوں کی تیز روی
وہ ہار جاتا ہے سب کچھ وہ اک جواری ہے
بسر ہوئی ہے شبِ وصل کس کی اور کہاں
جدید دور ہے یہ سب کو جانکاری
وہ حالِ حجرۂِ دل ٹوٹی ہوئی ہیں چیزیں
یوں لگتا ہے کسی نے خامشی اتاری ہے
فصیلِ شہرِ دلِ خاص بے سہارہ و آس
مچاؤ لوٹ میاں تم کو لوٹ پیاری ہے
بھلے کی بات ہے اے زیبؔ رفتگاں کی بات
خرامِ رفتہ اُسی سمت استواری ہے

0
14