عقل و خرد لیے ہوۓ حیران ہونے کو
ہم اس جہاں میں آۓ پریشان ہونے کو
چپ ہیں میاں ٹہل رہے ہیں صحنِ حزن میں
دل بجھ چلا ہے شام ہے سنسان ہونے کو
دل کے بھی طور دیکھیے، کس طور ہو گیا
کوۓ بتاں ہے کوچۂِ انجان ہونے کو
کچھ بات تو ہے آج مروت سے بولے وہ
ہے میرے سر کوئی نیا احسان ہونے کو
مطلب تو آشنائی میں پاسِ وفا سے تھا
میں کیا کروں تمہارے پشیمان ہونے کو؟
دورانِ عہدِ شوق پڑے ہیں عذاب میں
ممکن نہیں حیات ہو آسان ہونے کو
عقل و شعور اپنی جگہ ٹھیک ہیں مگر
انسان آج کا نہیں انسان ہونے کو

0
77