نہ نقش ہے نہ گماں! یہ عجیب بات نہیں؟
کہاں ہے تُو، میں کہاں! یہ عجیب بات نہیں؟
بہ دستِ کارِ زیاں! یہ عجیب بات نہیں؟
ہے لطف، لفظِ گراں! یہ عجیب بات نہیں؟
وہ سوزِ ہجر کہ جو موت دِکھتا تھا لیکن
ہیں مطمئن دل و جاں! یہ عجیب بات نہیں؟
ترے حضور تھا لیکن کہ تجھ سے پہلی بار
ملا نہیں ہے بیاں! یہ عجیب بات نہیں؟
میں نے بھی وقت سے سمجھوتا کر لیا آخر
وہ خوش وہاں، میں یہاں! یہ عجیب بات نہیں؟
وہ ساتھ تھا تو جہاں کو برا کہا مگر اب
ہوں محوِ کارِ جہاں! یہ عجیب بات نہیں؟
بہت برس کہیں رہ کر، کہیں کا ہو جانا
سو سوچ زیبؔ میاں! یہ عجیب بات نہیں؟

0
67