دیارِ آس میں یوں تجھ سے ہمکنار ہوۓ |
نُقوشِ زیست سرابوں پہ اُستوار ہوۓ |
شبِ شکنجۂِ حیرت میں آ کے سوچتے ہیں |
کہ کس طرح سے وہ گھر بار گرد و بار ہوۓ |
تُو بھی شریکِ فلاں بن فلاں ہوئی اور پھر |
غبارِ شہر و جہاں ہم بھی روزگار ہوۓ! |
نہ ضبطِ حال سے کچھ بن سکا نہ وحشت سے |
خرامِ دہر میں ہم دشت دشت خوار ہوۓ |
درونِ ذات چبھن دل جلاۓ بیٹھی ہے |
ترے دیے ہوۓ سارے ستم ادھار ہوۓ |
یہ کھیل وقت نے کھیلا ہے ہم نے جھیلا ہے |
یقین ٹوٹنے پر اور دستکار ہوۓ |
وفورِ شوق میں گھاٹے کی سودے بازی رہی |
طوافِ کوۓ ملامت پہ اشکبار ہوۓ |
معلومات