زیست! جو طرزِ گماں سے کسی فنکاری میں
آدھی مشکل میں ڈھلی آدھی اداکاری میں
آج پھر ایک ہواۓِ شبِ ناداری میں
ایک اور سال ڈھلا حالتِ بےزاری میں
ہاں وہ ہر سلسلۂِ عہدِ وفا تھا بے سود
ہاں وہ ہر منزلِ قربت کا گِلہ بود نبود
ہاں وہ ہر ذوقِ شاناسائی نے برباد کیا
ہاں وہ ہر لمحۂِ گویائی نے ناشاد کیا
ہاں وہ ہر خواب مرا نیند کی الجھن میں رہا
ہاں وہ ہر شب کا گِلہ جاگتی آنکھوں نے سہا
ہاں وہ ہر ہستئِ نَخوت سے گریزاں ہی رہے
پابجولاں بھی چلے، خصلتِ انساں سے پَرے
ہاں وہ احباب بچھڑنے کے تھے اک روز مگر!
پُرسکوں ہوۓ یوں بھی خانۂِ دل کے منظر
آج پھر چھوڑ چلا ہوں میں اسی سال کے ساتھ
کئی احباب! کسی رنج کی تمثال کے ساتھ

0
12