بلا سے کچھ بھی ہوں، بیوپارِ آرزو تو نہیں! |
میں زیبؔ! منکر و غدّارِ آرزو تو نہیں! |
عجیب وہم سے آکار دھیان میں آۓ |
یہ نقشۂِ در و دیوارِ آرزو تو نہیں؟ |
کسی بھی طور کہیں کچھ سکوں کی سانس نہیں |
حیات حاصلِ انبارِ آرزو تو نہیں؟ |
میں دیکھ دیکھ کے چلتا ہوں ایک ایک قدم |
نصیب اپنا کوئی دارِ آرزو تو نہیں |
نہ دل میں کوئی تپش ہے نہ خوفِ ہجر مجھے |
یہ حوصلہ کہیں انکارِ آرزو تو نہیں؟ |
چلا تھا سلسلۂِ آشنائی دونوں طرف |
کہ ایک میں ہی روادارِ آرزو تو نہیں |
جو گاہ گاہ گمانِ وصال آتا ہے |
دل و دماغ میں افکارِ آرزو تو نہیں؟ |
کسی خلل کے چھلاوے میں آیا بیچارہ |
کہیں یہ شخص طلبگارِ آرزو تو نہیں؟ |
جو بڑھ رہی ہے تجّلی سے بدحواسی زیبؔ |
کہ دیکھ لیجیے انگارِ آرزو تو نہیں؟ |
معلومات