بلا سے کچھ بھی ہوں، بیوپارِ آرزو تو نہیں!
میں زیبؔ! منکر و غدّارِ آرزو تو نہیں!
عجیب وہم سے آکار دھیان میں آۓ
یہ نقشۂِ در و دیوارِ آرزو تو نہیں؟
کسی بھی طور کہیں کچھ سکوں کی سانس نہیں
حیات حاصلِ انبارِ آرزو تو نہیں؟
میں دیکھ دیکھ کے چلتا ہوں ایک ایک قدم
نصیب اپنا کوئی دارِ آرزو تو نہیں
نہ دل میں کوئی تپش ہے نہ خوفِ ہجر مجھے
یہ حوصلہ کہیں انکارِ آرزو تو نہیں؟
چلا تھا سلسلۂِ آشنائی دونوں طرف
کہ ایک میں ہی روادارِ آرزو تو نہیں
جو گاہ گاہ گمانِ وصال آتا ہے
دل و دماغ میں افکارِ آرزو تو نہیں؟
کسی خلل کے چھلاوے میں آیا بیچارہ
کہیں یہ شخص طلبگارِ آرزو تو نہیں؟
جو بڑھ رہی ہے تجّلی سے بدحواسی زیبؔ
کہ دیکھ لیجیے انگارِ آرزو تو نہیں؟

54