نسبت ہے مشکلات سے، میری قبیل دکھ
یعنی نفس نفس میں رواں ہے ذلیل دکھ
اک دشت کے کٹہرے میں دونوں ہیں روبرو
مجرم ہوں زندگی کا میں، میرا وکیل دکھ
اس عالمِ قفس کا ذرا دیکھیے تضاد
ہے مختصر حیات بہت اور طویل دکھ
داؤ لگا کے ہار گیا کتنے شوق سے
ہر ایک چال ٹیڑھی ہوئی، اسپ و فیل دکھ
حد درجہ پہچنی ہوئی ہے لذت کی آرزو
حد درجہ کا بھی دکھ ہوا آخر قلیل دکھ

0
46